کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 59
i: حافظ ابن کثیر رقم طراز ہیں:
’’اِسْتِفْہَامُ إِنْکَارٍ، وَ مَعْنَاہُ أَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی لَا بُدَّ أَنْ یَّبْتَلِيَ عِبَادَہُ الْمُؤْمِنِیْنَ بِحَسَبِ مَا عِنْدَھُمْ مِنَ الْاِیْمَانِ۔‘‘[1]
’’(اس میں) استفہام انکاری ہے اور اس کا معنیٰ یہ ہے، کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو، ان کے ایمان کے بقدر ضرور آزمائش میں مبتلا کریں گے۔‘‘
ii: شیخ سعدی نے قلم بند کیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے کمال کے متعلق آگاہ فرما رہے ہیں اور ان کی حکمت کا تقاضا یہ نہیں، کہ اپنے تئیں [مومن] کہنے والے اور [اپنے ایمان کا دعویٰ] کرنے والے ایک ہی حالت میں رہتے ہوئے، فتنوں اور آزمائشوں سے محفوظ رہیں، انہیں آزمائش اور ابتلا کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس سے اُن کے ایمان اور اُس کی شاخوں پر تشویش طاری ہو، کیونکہ اگر صورتِ حال ایسے ہی ہو، تو سچا، جھوٹے سے اور حق والا، باطل والے سے نِکھر نہ پائے گا۔ اس کی بجائے اُن کا پہلے لوگوں اور اس امت میں دستور یہ ہے، کہ وہ اُنہیں مسرت اور تکلیف، تنگی اور آسانی، شادمانی اور مجبوری، تونگری اور فقیری، بسا اوقات دشمنوں کے اُن پر غلبہ، اُن کے دشمنوں کے خلاف قولی اور عملی جہاد اور اسی قسم کی دیگر آزمائشوں کے ساتھ پرکھتے رہتے ہیں۔‘‘[2]
ج: امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
’’میں نے عرض کیا:
’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَآئً؟‘‘
[1] تفسیر ابن کثیر ۵؍۴۴۵۔
[2] تفسیر السعدي ص ۶۲۶۔