کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 56
آیت کی تفسیر میں دو مفسرین کے اقوال:
i: حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
أَخْبَرَنَا تَعَالٰی أَنَّہٗ یَبْتَلِيْ عِبَادَہٗ ، أَيْ یَخْتَبِرُھُمْ وَ یَمْتَحَنُھُمْ، فَتَارَۃً بِالسَّرَّائِ وَ تَارَۃً بِالضَّرَّائِ مِنْ خَوْفٍ وَّ جُوْعٍ
{وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ} أَيْ ذَھَابِ بَعْضِھَا
{وَ الْأَنْفُسِ} کَمَوْتِ الْأَصْحَابِ وَالْأَقَارِبِ وَ الْأَحْبَابِ
{وَ الثَّمَرَاتِ} أَيْ لَا تَغُلُّ الْحَدَائِقُ وَ الْمَزَارِعُ کَعَادَتِھَا۔[1]
اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے، کہ وہ اپنے بندوں کو ابتلا میں ڈالتے ہیں یعنی انہیں آزماتے اور ان کا امتحان لیتے ہیں، بسا اوقات خوشی اور بسا اوقات خوف اور بھوک کی مصیبت کے ساتھ۔
{وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ} [اور مالوں میں سے کچھ نقصان کے ذریعے] یعنی اُن میں سے کچھ کے چلے جانے سے۔
{وَ الْأَنْفُسِ} [اور جانوں }کے نقصان{ سے] جیسے ساتھیوں، قرابت داروں اور پیاروں کی موت سے
{وَ الثَّمَرَاتِ} [اور پھلوں }کے نقصان{ سے] یعنی باغات اور کھیت حسبِ معمول پیداوار فراہم نہ کریں۔
ii: شیخ سعدی رقم طراز ہیں:
أَخْبَرَ تَعَالٰی أَ نَّہٗ لَا بُدَّ أَنْ یَّبْتَلِيَ عِبَادَہٗ بِالْمِحَنِ لِیَتَبَیَّنَ الصَّادِقَ مِنَ الْکَاذِبِ، وَالْجَازِ عَ مِنَ الصَّابِرِ۔ وَھٰذَا سُنَّتُہٗ فِیْ عِبَادِہٖ، لِأَنَّ السَّرَّائَ لَوِاسْتَمَرَّتْ لِأَھْلِ الْاِیْمَانِ، وَلَمْ یَحْصُلْ
[1] تفسیر ابن کثیر۱؍۲۱۱ باختصار۔