کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 534
سے خفا ہوئے۔‘‘] اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ نابینے شخص نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کا اعتراف کیا اور اعانت کے طلب گار کے ساتھ تعاون کے لیے مستعد ہوا، تو اللہ تعالیٰ اُس پر راضی ہو گئے۔ پھلبہری والے اور گنجے، دونوں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نوازشات کا انکار کیا اور محتاج کی مدد سے اپنے ہاتھوں کو روکا، تو اللہ تعالیٰ اُن دونوں پر خفا ہو گئے۔ علامہ قرطبی ’’إِنَّمَا وَرِثْتُ ہٰذَا الْمَالَ کَابِرًا عَنْ کَابِرٍ۔‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں: أَيْ کَبِیْرًا عَنْ کَبِیْرٍ، یَعْنِيْ أَنَّہٗ وَرِثَ ذٰلِکَ الْمَالَ عَنْ أَجْدَادِہِ الْکُبَرَائِ، فَحَمَلَہٗ بُخْلُہٗ عَلٰی نِسْیَانِِ مِنَّۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَ عَلٰی جَحْدِ نِعَمِہٖ، وَ عَلَی الْکِذْبِ۔ ثُمَّ أَوْرَثَہٗ ذَاکَ سُخْطَ اللّٰہِ الدَّآئِمِ، وَ کُلُّ ذٰلِکَ بِشُؤْمِ الْبُخْلِ۔[1] [’’یعنی (اُس نے اُس مال و اسباب کو ایسے آباء و اجداد سے ورثے میں حاصل کیا) جو (جاہ و حشمت اور مال و دولت کے اعتبار سے) بہت بڑے تھے اور (انہوں نے بھی اُسے) بہت بڑے لوگوں سے (ترکے میں پایا)۔ یعنی اُس نے اُسے بہت عالی مقام آباء و اجداد سے ورثے میں حاصل کیا۔ اُس کے بخل نے اُسے اللہ تعالیٰ کی نوازشات فراموش کرنے، اُن کی نعمتوں کا انکار کرنے اور جھوٹ پر آمادہ کیا۔ اُسی (سب کچھ) نے اُسے اللہ تعالیٰ کی ابدی ناراضی کا وارث ٹھہرایااور یہ تمام کچھ بخل کی نحوست کے سبب تھا۔] علّامہ رحمہ اللہ نابینے شخص کے ردّ عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’وَ اعْتَبِرْ بِحَالِ الْأَعْمٰی؛ لَمَّا اعْتَرَفَ بِنِعْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ، وَ شَکَرَہٗ عَلَیْہَا، وَ سَمَحَتْ نَفْسُہٗ بِہَا، ثَبَّتَہَا اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَ
[1] المفہم ۷/۱۱۹۔