کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 533
الْیَوْمَ إِلَّا بِاللّٰہِ، ثُمَّ بِکَ۔ أَسْاَلُکَ بِالَّذِيْ رَدَّ عَلَیْکَ بَصَرَکَ، شَاۃً أَتَبَلَّغُ بِہَا فِيْ سَفَرِيْ۔‘‘ [’’(میں) مسکین اور مسافر شخص (ہوں)۔ میرے سفر میں وسائل مجھ سے کٹ چکے ہیں۔ (اب) اللہ تعالیٰ ہی مجھے میری مراد تک پہنچانے والے اور پھر آپ ہیں۔ میں اُس ذات کے ساتھ (یعنی واسطے )، جس نے آپ کے لیے بینائی لوٹائی، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں، تاکہ میں اُس کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ پاؤں۔‘‘] تو اُس نے (جواب میں) کہا: ’’قَدْ کُنْتُ أَعْمٰی، فَرَدَّ اللّٰہُ إِلَيَّ بَصَرِيْ، فَخُذْ مَا شِئْتَ، وَ دَعْ مَا شِئْتَ۔ فَوَ اللّٰہِ! لَا أَجْہَدُکَ الْیَوْمَ شَیْئًا أَخَذْتَہٗ لِلّٰہِ۔‘‘ [’’یقینا میں نابینا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے میری بینائی لوٹا دی، سو آپ جو پسند کریں، لے لیجیے اور جسے چھوڑنا چاہیں، چھوڑ دیجیے۔ پس اللہ تعالیٰ کی قسم! آج اللہ تعالیٰ کے لیے آپ جو چیز پکڑیں گے، میں اُس میں سے (کچھ) کم نہیں کروں گا۔‘‘] اُس (فرشتے) نے کہا: ’’أَمْسِکْ مَالَکَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِیتُمْ۔ فَقَدْ رُضِيَ عَنْکَ وَسُخِطَ عَلٰی صَاحِبَیْکَ۔‘‘[1] اپنے مال کو روک لیجیے (یعنی اپنے پاس ہی رہنے دیجیے، پس یقینا تمہاری آزمائش کی گئی، [’’پس بے شک اللہ تعالیٰ آپ سے تو راضی ہوئے اور آپ کے دونوں ساتھیوں
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب أحادیث الأنبیآء، باب حدیث أبرص وأعمی وأقرع في بني إسرائیل، رقم الحدیث ۳۴۶۴، ۶/۵۰۰۔۵۰۱؛ وصحیح مسلم، کتاب الزھد والرقائق،رقم الحدیث ۱۰۔(۲۹۶۴)، ۴/۲۲۷۵۔۲۲۷۷؛ الفاظ حدیث صحیح مسلم کے ہیں۔