کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 525
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (ایک) کرسی لائی گئی، میرا گمان ہے، کہ اس کے پائے لوہے کے تھے۔ انہوں نے بیان کیا: ’’فَقَعَدَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وَ جَعَلَ یُعَلِّمُنِيْ مِمَّا عَلَّمَہُ اللّٰہُ۔ ثُمَّ أَتٰی خُطْبَتَہٗ فَأَتَمَّ آخِرَھَا۔‘‘[1] [’’پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس پر تشریف فرما ہوئے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں سکھلایا ہوا ہے، اُس میں سے مجھے سکھلانا شروع کیا۔ پھر اپنے خطبہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اِسے آخر تک مکمل فرمایا۔‘‘]۔ اللہ اکبر! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمِ ربانی: {وَاَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَرْ} کو کس قدر مضبوطی سے تھام رکھا تھا! & دورانِ خطبہ سلسلۂ کلام منقطع کرنے کے …عامِ خطباء کی نگاہ میں… شدید ناراضی کے سبب کے باوجود، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خفا نہ ہونا۔ & سائل کی جانب متوجہ ہونا اور خطبہ چھوڑنا۔ & سائل کے پاس آ جانا۔[2] & سائل کے پاس بیٹھ کر اسے اطمینان سے تعلیم دینے کے بعد واپس آ کر خطبہ مکمل کرنا۔ امام نووی نے لکھا ہے:
[1] صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، باب حدیث التعلیم في الخطبۃ، رقم الحدیث ۶۰۔ (۸۷۶)، ۲/۵۹۷۔ [2] علامہ قرطبی نے قلم بند کیا ہے: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس کی جانب چل کر جانے اور اُس سے قریب ہونے میں (دین سمجھانے کی خاطر) میسر آنے والے موقع کو غنیمت جاننا اور سائل کی اپنی نظر میں اہمیت کا اظہار ہے۔‘‘ (المفہم ۲/۵۱۵)۔