کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 521
{وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ}: أَيْ: وَکَمَا کُنْتَ عَآئِلًا فَقِیْرًا، فَأَغْنَاکَ اللّٰہُ، فَحَدِّثْ بِنِعْمَۃِ اللّٰہِ عَلَیْکَ۔[1] {وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ}: یعنی جیسے آپ محتاج و فقیر تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو غنی کر دیا، پس آپ اللہ تعالیٰ کی اپنے آپ پر نازل کردہ نعمت کا تذکرہ کیجیے۔ iv: شیخ ابن عاشور: اس تفصیل والی تین نعمتوں کے مدّمقابل تین اعمال بیان کیے گئے ہیں۔ (اس طرح) یہ تفصیل لف و نشر مرتب[2] کے طریقے پر ہو گی۔ (علامہ) طیبی نے اسی طریقے کو اختیار کیا ہے۔ سفیان بن عیینہ کی [اَلسَّائِلَ] کی [دین و ہدایت کے متعلق سوال کرنے والے] سے بھی یہی ترتیب بنتی ہے۔ پس ارشادِ تعالیٰ: {فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ}: بلاشبہ ارشادِ تعالیٰ: {اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَآوٰی} کے مدّ مقابل ہے۔ یعنی جیسے آپ کے رب نے آپ کو جگہ مہیا فرمائی اور یتیمی میں عام طور پر لاحق ہونے والی محرومیوں سے محفوظ فرمایا، سو اسی طرح آپ یتیموں کی تکریم کرنے والے اور اُن کے ساتھ لطف اور مہربانی کرنے والے ہو جائیے۔ اور ارشادِ تعالیٰ: {وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَرْ}: ارشادِ تعالیٰ: {وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی} کے مدّمقابل ہے، کیونکہ راہ سے ناواقف راستے کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ اسی لیے گم کردہ راہ، سوال کرنے والے لوگوں کا نصف ہیں اور ایسے سوال کرنے والے کو بسا اوقات مسؤول (یعنی پوچھے جانے والے) کی حماقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے راہِ خیر کی جانب ہدایت
[1] تفسیر ابن کثیر ۴/۵۵۵ باختصار۔ [2] (لف و نشر مرتب): کچھ باتیں یا چیزیں ذکر کی جائیں، پھر اُن میں سے ہر ایک بات یا چیز کے متعلق باتیں یا چیزیں پہلی ذکر کردہ باتوں کی ترتیب کے مطابق ذکر کی جائیں۔