کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 520
نے پہلے آپ سے ارشاد فرمایا: [ترجمہ: کیا انہوں نے آپ کو یتیم نہیں پایا، تو جگہ دی؟ اور آپ کو راستے سے ناواقف پایا، تو راستہ دکھا دیا اور آپ کو تنگ دست پایا، تو غنی کر دیا]۔ پھر اس ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے پہلے یتیم کے حق کا خیال رکھنے کی وصیت فرمائی، پھر علم و ہدایت کے بارے میں سوال کرنے کے حق کی پاس داری کی تاکید فرمائی۔ دوسرا قول (یہ ہے)، کہ سائل سے مطلق سائل مراد ہے (یعنی وہ طالبِ علم ہو یا طالبِ مال)۔ [1] iii: حافظ ابن کثیر: {فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ}: أَيْ: کَمَا کُنْتَ یَتِیْمًا، فَآوَاکَ اللّٰہُ، فَلَا تَقْہَرِ الْیَتِیْمَ أَيْ: لَا تُذِلَّہٗ وَتَنْہَرْہُ وَتُہِنْہُ، وَلٰکِنْ أَحْسِنْ إِلَیْہِ وَتَلَطَّفْ بِہٖ۔ {فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ}: یعنی جس طرح آپ یتیم تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو جگہ مہیا فرمائی، سو (اسی طرح) آپ یتیم کو نہ جھڑکیے، یعنی نہ اُسے ذلیل و رسوا کیجیے اورنہ اُسے ڈانٹ ڈپٹ اور رسوا کیجیے، بلکہ اس کے ساتھ احسان و شفقت فرمائیے۔ {وَأَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْہَرْ}: أَيْ: وَکَمَا کُنْتَ ضَآلًّا، فَہَدَاکَ اللّٰہُ، فَلَا تَنْہَرِ السَّآئِلَ فِيْ الْعِلْمِ الْمُسْتَرْشِدِ۔ {وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَرْ}: یعنی جس طرح آپ راستے سے ناواقف تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی راہنمائی فرمائی، آپ راہنمائی طلب کرنے والے طالب علم کو جھڑکیے نہیں۔
[1] التفسیر الکبیر ۳۱/۲۱۹۔۲۲۰ باختصار۔