کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 52
[’’یہ انسان ہے (مربع شکل کے درمیان نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بات فرمائی)۔ یہ اس کی موت ہر جانب سے اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے (یعنی مربع شکل) یا قریب قریب احاطہ کر چکی ہے اور یہ (لکیر) جو اس (مربع شکل) سے نکل رہی ہے، اس کی امید ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں مصیبتیں ہیں۔ اگر یہ (یعنی ایک مصیبت) اس سے چوک جاتی ہے، تو یہ (یعنی دوسری) آ پہنچتی ہے اور اگر یہ اس سے چوک جاتی ہے تو یہ (یعنی ایک تیسری مصیبت) اسے پہنچ جاتی ہے۔‘‘]
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے، کہ انسان کو بیماری، تنگ دستی، وغیرہ متعدد اقسام کی آفتوں، حادثات، مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایک سے بچ جاتا ہے، تو کسی دوسری مصیبت کی زَد میں آ جاتا ہے۔ اگر اس سے محفوظ ہو گیا اور کوئی اور دوسری بیماری، مالی نقصان یا اور کوئی آفت نہ آئی، تو موت آ دبوچتی ہے۔[1]
قابل تعجب بات یہ ہے، کہ دنیا میں مصائب کی اس عمومی اور مسلسل یلغار کے باوجود ہماری ایک بہت بڑی اکثریت کا مصیبتوں کے ساتھ طرزِ عمل تسلّی بخش اور قابل تعریف نہیں، بلکہ وہ نادرست اور باعثِ افسوس ہے، کہ ہماری ایک بہت بڑی تعداد مصائب سے بچاؤ کی تدبیریں اختیار کرنے اور مصائب کا سبب بننے والے کاموں سے گریز کرنے کی بجائے ایسے دکھائی دیتے ہیں، کہ وہ چیخ چیخ کر انہیں آنے کی پرزور دعوت دے رہی ہے۔
مصیبتوں کے آنے پر انہیں ختم کرنے یا اُن کا زور توڑنے والی باتوں کی بجائے، ہم غالباً ایسا طرزِ عمل اپناتے ہیں، جو جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہماری ایک بہت ہی بڑی تعداد قلق، اضطراب، بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہو جاتی ہے۔
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۱/۲۳۸؛ و مرقاۃ المفاتیح ۹/۱۲۰۔