کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 519
دروازے سے نہ دھتکارئیے، جیسے کہ آپ کے ربّ تعالیٰ نے آپ پر رحم فرمایا اور آپ کو فقر کے بعد غنی کر دیا۔ (مزید برآں) اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کا (بطورِ شکر) تذکرہ کیجیے۔ اس ضمن میں یہ بھی ہے، کہ آپ بھٹکے ہوئے کی راہنمائی کیجیے، شریعت کی باتوں اور قرآن (کریم) کی تعلیم دیجیے۔ اس سلسلے میں (بھی) آپ اللہ تعالیٰ کی اقتدا کیجیے، کہ انہوں نے راستے سے آپ کی ناآشنائی کو (کمال) شناسائی سے تبدیل فرما دیا۔‘‘] ii: علّامہ رازی نے قلم بند کیا ہے: ارشادِ تعالیٰ: {فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْہَرْ} یعنی اُس کے لیے تیوری نہ چڑھائیے، معنیٰ یہ ہے، کہ اُس کے ساتھ ویسے ہی برتاؤ کیجیے، جیسا کہ انہوں (یعنی اللہ تعالیٰ) نے آپ کے ساتھ کیا۔ ایک لحاظ سے، اس جیسی بات (حسب ذیل آیت شریفہ میں ہے): {وَ أَحْسِنْ کَمَآ أَحْسَنَ اللّٰہُ إِلَیْکَ}[1] [اور تم (دوسرے لوگوں کے ساتھ) احسان کرو، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ احسان کیا]۔ پھر ارشاد فرمایا: {وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَرْ}: کہا جاتا ہے: [نَہَرَہٗ وَ انْتَہَرَہٗ] جب کسی سے جھڑکنے والی گفتگو کی جائے۔ [سائل] سے [مراد کے متعلق] دو اقوال ہیں: پہلا قول، جسے حسن (بصری) نے پسند کیا ہے، کہ اِس سے مقصود طالبِ علم ہے۔ ایک اعتبار سے اسی طرح ارشادِ تعالیٰ ہے: {عَبَسَ وَ تَوَلّٰی۔ أَنْ جَآئَ ہُ الْأَعْمٰی}[2] [ترجمہ: انہوں نے تیوری چڑھائی اور مُنہ پھیر لیا، کہ اُن کے پاس اندھا آیا]۔ اسی طرح (پہلی ذکر شدہ بات اور اس میں) ترتیب قائم ہوئی، کیونکہ اللہ تعالیٰ
[1] سورۃ القصص/ جزء من الآیۃ ۷۷۔ [2] سورۃ عبس/ الآیتان ۱-۲۔