کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 511
وَ أَمَّا قَوْلِہٖ تَعَالٰی: {وَاِِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ} فَفِیْہِ وَجْہَانِ: أَحَدُھُمَا اِجْعَلْ رَغْبَتَکَ إِلَیْہِ خُصُوْصًا، وَ لَا تَسْأَلْ إِلَّا فَضْلَہٗ مُتَوَکِّلًا عَلَیْہِ۔ وَ ثَانِیْہِمَا: اِرْغَبْ فِيْ سَائِرِ مَا تَلْتَمِسُہٗ دِیْنًا وَ دُنْیًا وَ نُصْرَۃً عَلَی الْأَعْدَآئِ إِلٰی رَبِّکَ۔[1] [پھر انہوں (اللہ) تعالیٰ نے فرمایا: {فَإِِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ} اس کے اپنے ماقبل سے تعلق کی صورت یہ ہے، کہ جب (اللہ) تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سابقہ عنایات کو شمار فرمایا اور آئندہ نعمتوں کا وعدہ فرمایا، تو بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شکر اور عبادت میں خوب کوشش کرنے پر ابھارتے ہوئے ارشاد فرمایا: (ترجمہ: پس جب آپ فارغ ہو جائیں، تو محنت کیجیے) یعنی (اس قدر محنت کیجیے، کہ) آپ تھک جائیں۔ جہاں تک ارشاد تعالیٰ: {وَ إِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ} کا تعلق ہے، تو اس کے دو معانی ہیں: اِن میں سے ایک (یہ ہے): اپنی امید صرف اُنہی سے وابستہ کیجیے۔ اُن پر توکل کرتے ہوئے، صرف اُنہی کے فضل کا سوال کیجیے۔ اُن میں سے دوسرا: دین، دنیا اور دشمنوں کے خلاف نصرت، غرضیکہ اپنا ساری مطلوبہ چیزوں کے لیے، اپنی رغبت اُن کے حضور پیش کیجیے]۔ iii: قاضی ابو سعود: {فَإِِذَا فَرَغْتَ} أَيْ مِنَ التَّبْلِیْغِ، وَ قِیْلَ مِنَ الْغَزْوِ۔ {فَانْصَبْ} فَاجْتَہِدْ فِيْ الْعِبَادَۃِ وَ اتْعَبْ شُکْرًا لِمَا أَوْلَیْنَاکَ مِنَ النِّعَمِ السَّالِفَۃِ وَ وَعَدْنَاکَ مِنَ الْآلَائِ الْآنِفَۃِ۔
[1] التفسیر الکبیر ۳۲/۷ باختصار۔