کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 505
نصرت و فتح کے حاصل ہونے کے بعد حکم یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے، کہ وہ اس یعنی نعمت کے میسر آنے پر اپنے رب کریم کا شکر کریں، اُن کی حمد کے ساتھ ان کی تسبیح بیان کریں اور اُن سے مغفرت طلب کریں۔] v : سیّد قطب رقم طراز ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی دعوت پر امین اور دین کی چوکیداری کی جو نعمت بخشی اور اپنے دین کی نصرت سے ساری بشریت پر جو رحمت فرمائی اور اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فتح دی اور لوگ جو کہ اندھے پن، گمراہی اور خسارے کے بعد اس وسیع و عریض خیر میں جو فوج در فوج داخل ہوئے، اس (سب کچھ پر) تسبیح و تحمید (کا حکم دیا)۔ متعدد نفسانی عوارض (کے علاج) کے لیے، جو بہت ہی باریک اور لطیف انداز میں (انسان میں) داخل ہوتے ہیں، استغفار ہے۔ طویل جدوجہد کے بعد فتح کا نشہ اور طبی مشقت کے بعد بامراد ہونے کی خوشی کے سبب بسا اوقات دل کو لاحق ہونے یا اس میں گھس جانے والے فخر و مباہات کے لیے استغفار ہے۔ اس چیز کے انسانی دل میں داخل سے بچنا مشکل ہے۔ طویل جدوجہد، سخت مشقّت، انتہائی تنگی اور ہر جانب سے گھیرے ہوئے غموں کی وجہ سے دلوں میں بسا اوقات آنے یا گھسنے والی سختی سے پیدا ہونے والی گھٹن، نصرتِ الٰہیہ کے وعدے کی تکمیل میں تاخیر (کا گمان) اور (قدموں کے) ڈگمگانے کے لیے [استغفار] ہے۔[1] قدموں کے ڈگمگانے کے حوالے سے ایک دوسرے مقام پر فرمایا: {أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ
[1] اسی بارے میں شیخ قاسمی نے تحریر کیا ہے: (وَ اسْتَغْفِرْہُ): نصرت و فتح کے آنے میں (تمہارے خیال کے مطابق) تاخیر کی بنا پر پیدا ہونے والی بے چینی، چڑچڑا پن اور غم کے لیے اپنے اور اپنے اصحاب کے لیے بخشش کا سوال کیجیے۔ (تفسیر القاسمي ۱۷/۲۸۱)