کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 504
وہم و گمان سے بالا آسانی کے میسر آنے پر تعجب کے (اظہار و) اعلان کے لیے اور [اُن کی حمد] اُن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خوبصورت عنایت اور بہت بڑی نوازش کی بنا پر، کہ انہوں نے اپنی نصرت سے ام القریٰ (مکہ مکرمہ) کو فتح کروا دیا، کہ جس کے باشندے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنی عداوت میں انتہائی حد کو پہنچے ہوئے تھے، یہاں تک کہ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹی باتیں بنانے اور مختلف قسم کے بہتان لگانے کے بعد، اُنہیں اُس (بستی) سے نکال دیا۔ اس کے ساتھ (اللہ) سبحانہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم دیا: یعنی اُن (اللہ تعالیٰ) سے اپنے گناہ کی بخشش طلب کیجیے، اپنی کسرِ نفسی کرتے، اپنے عمل کو معمولی گردانتے اور افضل باتوں کے چھوڑنے کی کمی کی تلافی کرتے ہوئے]۔ iv: شیخ سعدی نے تحریر کیا ہے: فِيْ ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ الْکَرِیْمَۃِ بَشَارَۃٌ، وَأَمْرٌ لِّرَسُوْلِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم عِنْدَ حُصُوْلِہَا۔ فَالْبَشَارَۃُ ھِيَ الْبَشَارَۃُ بِنَصْرِ اللّٰہِ لِرَسُوْلِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وَفَتْحِہٖ مَکَّۃَ، وَدُخُوْلِ النَّاسِ فِيْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجًا۔ وَأَمَّا الْأَمْرُ بَعْدَ حُصُوْلِ النَّصْرِ وَالْفَتْحِ، فَأَمَرَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنْ یَشْکُرَ رَبَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ، وَیُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ، وَیَسْتَغِفْرُہٗ۔[1] اس سورہ کریمہ میں بشارت ہے اور اُس کے پورا ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (کچھ کام کرنے کا) حکم ہے۔ بشارت یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائیں، مکہ (مکرمہ) فتح ہو گا اور لوگ اللہ تعالیٰ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے۔
[1] تفسیر السعدي ص ۹۳۶ باختصار۔