کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 497
آیت شریفہ میں بیان کردہ بات کا سبب:
اسی بارے میں تین مفسرین کے اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
i: علامہ رازی نے تحریر کیا ہے:
’’وَ إِنَّمَا ذَکَرَ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ تَنْبِیْھًا عَلٰی أَنَّ ھٰذِہِ الطَّرِیْقَۃَ مَذْمُوْمَۃٌ، بَلِ الْوَاجِبُ عَلَی الْإِنْسَانِ الْعَاقِلِ أَنْ یَکُوْنَ صَابِرًا عِنْدَ نُزُوْلِ الْبَلَآئِ، شَاکِرًا عِنْدَ الْفَوْزِ بِالنَّعْمَآئِ۔ وَ مِنْ شَأْنِہٖ أَنْ یَکُوْنَ کَثِیْرَ الدُّعَآئِ وَ التَّضَرُّعِ فِيْ أَوْقَاتِ الرَّاحَۃِ وَ الرَّفَاھِیَّۃِ، حَتّٰی یَکُوْنَ مُجَابُ الدَّعْوَۃِ فِیْ وَقْتِ الْمِحْنَۃِ۔ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم : ’’مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یُسْتَجَابَ لَہٗ عِنْدَ الْکُرَبِ وَ الشَّدَائِدِ فَلْیُکْثُرِ الدَّعَائَ عِنْدَ الرَّخَائِ۔‘‘[1]،[2]
’’درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس طرزِ عمل کے قابلِ مذمت ہونے پر تنبیہ کی غرض سے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ عقل مند شخص پر واجب ہے، کہ وہ مصیبت کے آنے پر صبر کرے اور نعمتیں پانے پر شکر گزار بنے۔ اس کی کیفیت یہ ہونی چاہیے، کہ راحت اور خوش حالی کے اوقات میں بہت زیادہ دعا اور گریہ زاری کرے، تاکہ غموں اور سختیوں اور اوقات میں دعاؤں کی قبولیت والا بن جائے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت کیا گیا) ہے:
[ترجمہ: جسے پسند ہو، کہ اندوہناک غموں اور بہت سنگین سختیوں میں اس کے لیے (یعنی اس کی دعاؤں کو) قبول کیا جائے، تو وہ خوش حالی میں زیادہ دعا کرے]۔
ii: علامہ الوسی لکھتے ہیں:
’’وَفِيْ الْآیَۃِ ذَمٌّ لِمَنْ یَتْرُکُ الدُّعَائَ فِيْ الرَّخَآئِ وَیَہْرَعُ
[1] اس حدیث کی تخریج کتاب ہذا کے ص … پر دیکھیے۔
[2] التفیسر الکبیر ۱۷/۵۰۔