کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 496
یا (مراد یہ ہے، کہ) گریہ زاری اور خشوع و خضوع والی کیفیت سے پہلو تہی کرتا ہے۔
{کَأَنْ لَّمْ یَدْعُنَا} یعنی اس شخص کی مانند گزر جاتا ہے، جس نے (کبھی) ہم سے دعا ہی نہیں کی۔
{إِلٰی ضُرٍّ} تکلیف کے دُور کرنے (کی خاطر)۔
{کَذٰلِکَ} مصدر ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور (ذَاکَ) سے بعد میں آنے والے فعل کے مصدر کی طرف اشارہ ہے۔ [اور وہ فعل زُیِّنَ (مزین کیا گیا) ہے]۔
اور اس (یعنی [ذا]) میں دُوری کا معنیٰ فخامت (یعنی اس بات کی سنگینی کی شدت کو اجاگر کرنے) کے لیے ہے اور [کَ] کا درمیان میں لایا جانا اس سنگینی کی شدّت میں مزید اضافے پر دلالت کی غرض سے ہے۔
{مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ} جو کہ ذکر و دعا سے مُنہ موڑنے اور شہوتوں میں ڈوبنے کا طرزِ عمل اختیار کرتے تھے]۔ [1]
iii: علامہ شوکانی نے تحریر کیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی جانب سے دعا کرنے والے کی بیان کردہ یہ کیفیت، صرف کافروں ہی کی نہیں، بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی ایسے ہی ہے۔ ناپسندیدہ چیز کے آنے پر اُن کی زبانیں دعا کے ساتھ اور دل خشوع و خضوع کے ساتھ نرم ہو جاتے ہیں، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُسے اُن سے دُور فرما دیتے ہیں، تو وہ دعا اور (اللہ تعالیٰ کے حضور) گریہ زاری سے غافل ہو جاتے ہیں۔ وہ دعا کی قبولیت، نازل شدہ تکلیف کے ختم کرنے اور ناپسندیدہ چیز کے دُور کرنے کی صورت میں، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا اپنے ذمہ واجب شکر کرنا (بھی) فراموش کر دیتے ہیں۔‘‘[2]
[1] تفسیر أبي السعود ۴/۱۲۶۔
[2] فتح القدیر ۲/۶۲۱-۶۲۲۔