کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 495
ہے، گویا کہ اُس نے ہم سے کسی تکلیف (کے دور کرنے) کے متعلق دعا ہی نہیں کی]۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرزِ عمل اور طریقے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: [ترجمہ: حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے اُن کے اعمال اسی طرح خوبصورت بنا دئیے جاتے ہیں]۔ ii: قاضی ابو سعود نے قلم بند کیا ہے: {وَ إِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ} یعنی جب اُسے بیماری یا غربت وغیرہ، کسی قسم کی کوئی ہلکی سی مصیبت بھی پہنچے، تو وہ اُس کے دُور کرنے اور لے جانے کی خاطر ہم سے دعا کرتا ہے۔ {لِجَنْبِہٖٓ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَآئِمًا} یعنی اپنی تمام حالتوں میں، جن (تین حالتوں) کا ذکر کیا گیا ہے، اُن میں بھی اور اُن کے علاوہ دیگر احوال میں بھی۔ شمار کردہ (تین) حالتوں کی تخصیص کا سبب یہ ہے، کہ انسان اِن کے علاوہ کسی اور کیفیت میں کم ہی ہوتا ہے۔ اگر [اَلضُّرُّ] سے مراد بیماری ہے، تو (معنٰی یہ ہو گا، کہ) وہ اپنی بیماری کی تمام حالتوں میں ہم سے التجائیں کرتا ہے: لیٹے ہوئے، جب وہ بیٹھنے سے عاجز ہوتا ہے، بیٹھے ہوئے، جب وہ اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتا اور کھڑے ہوئے، جب وہ حرکت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ {فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ}: جب ہم اُس کی ہمارے حُضور دعا کرنے کے بعد، تکلیف کو دُور کر دیتے ہیں۔ {فَلَمَّا} [پس جب] کے آغاز میں موجود حرفِ [الفاء] دعا کے بعد، مصیبت کی دُوری کی نشان دہی، کرتا ہے۔ {مَرَّ} یعنی تکلیف آنے سے پہلے والی چال میں چلتا پھرتا ہے۔ مشقت اور مصیبت والی حالت بھول جاتا ہے۔