کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 494
’’یُخْبِرُ تَعَالٰی عَنِ الْإِنْسَانِ وَ ضَجْرِہٖ وَ قَلْقِہٖ إِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَقَوْلِہٖ: {وَ إِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآئٍ عَرِیْضٍ} أَيْ: کَثِیْرٌ۔ وَ ھُمَا فِيْ مَعْنٰی وَاحِدٍ، وَ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ إِذَآ أَصَابَتْہُ شِدَّۃٌ، قَلَقَ لَہا، وَ جَزَعَ مِنْہَا، وَ أَکْثَرَ الدُّعَائَ عِنْدَ ذٰلِکَ، فَدَعَا اللّٰہُ تَعَالٰی فِيْ کَشْفِہَا، وَ رَفْعَہَا عَنْہُ فِيْ حَالِ اِضْطِجَاعِہٖ وَ قُعُوْدِہٖ وَ قِیَامِہٖ، وَ فِيْ جَمِیْعِ أَحْوَالِہٖ۔فَإِذَا فَرَّجَ اللّٰہُ شِدَّتَہٗ، وَ کَشَفَ کُرْبَتَہٗ أَعْرَضَ وَ نَاٰی بِجَانِبِہٖ، وَ ذَھَبَ کَأَنَّہٗ مَا کَانَ بِہٖ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئٌ ۔ (مَرَّ کَأَنْ لَّمْ یَدْعُنَا إِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ) ثُمَّ ذَمَّ اللّٰہُ تَعَالٰی مَنْ ھٰذِہٖ صِفَتُہٗ وَ طَرِیْقَتُہٗ، فَقَالَ: {کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ} [مصیبت کے لاحق ہونے کی حالت میں انسان اور اس کی خفگی اور بے قراری کی اللہ تعالیٰ کیفیت بیان فرما رہے ہیں۔ جیسا کہ (ایک دوسری جگہ) ارشادِ تعالیٰ ہے: {وَ إِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآئٍ عَرِیْضٍ}[1] [ترجمہ: اور جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے، تو لمبی چوڑی دعا والا ہو جاتا ہے]۔ یعنی بہت دعا کرتا ہے۔ دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ اور وہ اس لیے (فرمایا) کیونکہ جب اُس پر سختی آتی، تو بے چین ہو جاتا، جزع فزع کرتا اور اس وقت بہت دعائیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ سے لیٹے ہوئے، بیٹھے ہوئے، کھڑے ہوئے، غرضیکہ سب حالتوں میں، اُسے دُور کرنے اور اُس سے لے جانے کی التجائیں کرتا رہتا۔ جب اللہ تعالیٰ اس کی سختی ختم کر دیتے اور اس کے غم کو ختم کر دیتے، تو وہ منہ موڑ لیتا اور پہلو پھیر کر چلا جاتا اور اس طرح گزر جاتا، گویا کہ پہلے اس کے ساتھ اس قسم کی کوئی بات ہی نہیں تھی (جیسا کہ آیت شریفہ میں ہے): [ترجمہ: وہ گزر جاتا
[1] سورۃ فصلت / جزء من الآیۃ ۵۱۔