کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 477
(ترجمہ: پھر جب ہم اپنی جانب سے اٌسے نعمت عطا فرمائیں) (یعنی) اُسے ازراہِ نوازش عطا فرمائیں، کیونکہ (لفظ) [اَلتَّخْوِیْلُ] اسی قسم (یعنی بطورِ نوازش) دئیے جانے ساتھ مخصوص ہے۔ (یہ لفظ) بطورِ جزا دئیے جانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ {قَالَ إِِنَّمَا أُوْتِیتُہُ عَلٰی عِلْمٍ} (ترجمہ: اُس نے کہا: بلاشبہ یہ مجھے علم کی بنا پر دیا گیا ہے۔) (یعنی) یہ مجھے کمانے کے طریقوں سے میری آگاہی کے سبب ملا ہے۔ یا (مجھے یہ اس وجہ سے دیا گیا ہے، کہ مجھے علم تھا، کہ) میرے حق دار ہونے کی وجہ سے مجھے یہ دیا جائے گا۔ یا (مجھے اس بنا پر دیا گیا ہے، کہ) مجھے علم تھا، کہ اللہ تعالیٰ کو میرے بارے میں اور میرے اس (عطا کی جانے والی چیز) کے مستحق ہونے کے متعلق علم تھا۔ {بَلْ ہِیَ فِتْنَۃٌ} بلکہ وہ فتنہ ہے] یعنی وہ اُس کے لیے امتحان اور آزمائش تھا، کہ آیا وہ شکر کرتا ہے یا ناشکری۔[1] اسلوب کی تبدیلی اس (یعنی بیان کردہ حقیقت) کی تاکید میں مبالغہ کی خاطر ہے، کہ اُسے دینا عزت افزائی کے پیش نظر نہیں۔ اس کی غرض و غایت تو اس سے کلی طور پر مختلف ہے۔ {وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ} [ترجمہ: اور لیکن ان کی اکثریت تو نہیں جانتی]۔ حقیقت وہی ہے، جو بیان کی گئی ہے اور اس میں اس بات پر دلالت ہے، کہ [اَلْإِنْسَانُ] سے مراد جنسِ انسانی ہے۔
[1] نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱۵/۲۶۶؛ وتفسیر ابن کثیر ۴/۶۱؛ وفتح القدیر ۴/۶۶۶؛ وروح المعاني ۲۴/۱۲؛ وتفسیر القاسمي ۱۴/۲۱۲؛ وتفسیر السعدي ۸۵۸۔