کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 468
کے سبب ہی سے ہوتی ہے۔ ان میں سے پہلی (حقیقت): وہ (ناامید ہونے والا) اللہ تعالیٰ کے اس پر قادر ہونے سے بے خبر ہو۔ دوسری (حقیقت): اُسے اِس بات سے آگاہی نہ ہو، کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کی اُن کے حضور حاجت کو جانتے ہیں۔ تیسری (حقیقت): وہ اِس بات سے ناآشنا ہو، کہ اللہ تعالیٰ بخل، محتاجی اور لاعلمی سے مبرا ہیں۔ یہ (تینوں) باتیں گمراہی کا سبب ہیں۔ اس بنا پر انہوں (یعنی ابراہیم علیہ السلام ) نے کہا (جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا): [ترجمہ: اور گمراہ لوگوں کے علاوہ اپنے رب کی رحمت سے کوئی ناامید نہیں ہوتا۔] iii: سیّد قطب لکھتے ہیں: ’’إِنَّہٗ لَا یَقْنُطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖ إِلَّا الضَّالُّوْنَ: اَلضَّالُّوْنَ عَنْ طَرِیْقِ اللّٰہِ، اَلَّذِیْنَ لَا یَسْتَرُوْحُوْنَ رَوْحَہٗ، وَلَا یُحِسُّوْنَ رَحْمَتَہٗ، وَلَا یَسْتَشْعِرُوْنَ رَأْفَتَہٗ وَبَرَّہٗ وَرِعَایَتَہٗ۔ فَأَمَّا الْقَلْبُ النَّدِيُّ بِالْإِیْمَانِ، اَلْمُتَّصِلُ بِالرَّحْمٰنِ، فَلَا یَیْأَسُ، وَلاَ یَقْنُطُ مَہْمَا أحَاطَتْ بِہِ الشَّدَائِدُ، وَمَہْمَا اِدْلَہَمَتْ حَوْلَہٗ الْخُطُوْبُ، وَمَہْمَا غَامَ الْجَوُّ وَتَلَبَّدَ، وَغَابَ وَجْہُ الْأَمَلُ فِيْ ظَلَامِ الْحَاضِرِ وَثِقْلِ ھٰذَا الْوَاقِعِ الظَّاھِرِ… فَإِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ الْمُھْتَدِیْنَ۔ وَقُدْرَۃُ اللّٰہِ تُنْشِیئُ الْأَسْبَابَ کَمَا تُنْشِیئُ النَّتَائِجُ، وَتُغَیِّرُ الْوَاقِعَ کَمَا تُغَیِّرَ الْمَوْعُوْدَ۔‘‘[1]
[1] في ظلال القرآن ۴/۲۱۴۸؛ نیز ملاحظہ ہو: ۴/۲۰۲۶؛ وتفسیر السعدي ص ۴۹۳۔