کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 456
ا: ارشادِ باری تعالیٰ: {فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا}[1] [کیونکہ یقینا ہر مشکل کے ساتھ ایک عظیم آسانی ہے۔ یقینا ہر مشکل کے ساتھ ایک عظیم آسانی ہے]۔ ان آیتوں میں ربِّ کریم نے مصیبت کے مارے اور دکھوں کے ستائے ہوئے لوگوں کے لیے آنکھوں کو ٹھنڈا اور دلوں کو باغ باغ کرنے والی عظیم نویدِ مسرت سنائی ہے، کہ بلاشک و شبہ اُنہوں نے ہر تنگی کے ساتھ عظیم آسانی رکھی ہے۔ دو مفسرین کے اقوال: i: قاضی شوکانی: ’’أَيْ: أَنَّ مَعَ الضِّیْقَۃِ سِعَۃً، وَمَعَ الشِّدَّۃِ رَخَآئً، وَمَعَ الْکَرْبِ فَرَجًا۔ وَفِيْ ھٰذَا وَعْدٌ مِنْہُ سُبْحَانَہٗ بِأَنَّ کُلَّ عَسِیْرٍ یِتَیَسَّرُ، وَکُلَّ شَدِیْدٍ یَہُوْنُ، وَکُلَّ صَعْبٍ یَلِیْنٌ۔‘‘[2] [’’یعنی بلاشبہ ہر تنگی کے ساتھ وسعت، ہر سختی کے ساتھ آسانی اور ہر دکھ کے ساتھ (اس سے) چھٹکارا ہے۔ اس میں (اللہ) سبحانہ کی طرف سے وعدہ ہے، کہ ہر تنگی آسان، ہر سختی ہلکی پھلکی اور ہر مشکل نرم ہو جائے گی‘‘]۔ ii: شیخ سعدی کا بیان: ’’بَشَارَۃٌ عَظِیْمَۃٌ أَنَّہٗ کُلَّمَا وُجِدَ عُسْرٌ وَصَعُوْبَۃٌ، فَإِنَّ الْیُسْرَ یُقَارِنُہٗ وَیُصَاحِبُہٗ، حَتّٰی لَوْ دَخَلَ الْعُسْرُ جُحْرَضَبِّ، لَدَخَلَ عَلَیْہِ الْیُسْرُ، فَأَخْرَجَہٗ۔‘‘[3]
[1] سورۃ الشرح/ الآیتان ۵-۶۔ [2] فتح القدیر ۵/۶۵۶؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۴/۵۵۷۔ [3] تفسیر السعدي ص ۹۲۹۔