کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 446
’’لَقَدْ رَأَیْتُنَا وَ نَحْنُ مِنْ أَعَزِّ النَّاسِ وَ أَشَدِّہِمْ مُلْکًا، ثُمَّ لَمْ تَغِبِ الشَّمْسُ حَتّٰی رَأَیْتُنَا، وَ نَحْنُ أَقَلُّ النَّاسِ، وَ أَنَّہٗ حَقٌّ عَلَی اللّٰہِ أَلَّا یَمْلَأُ دَارًا خَیْرَۃً إِلَّا مَلَأَہَا عَبْرَۃً۔‘‘ [’’یقینا ہم نے خود کو دیکھا، کہ ہم معزز ترین لوگوں اور شدید ترین بادشاہت والوں میں سے تھے۔ پھر سورج غروب ہونے سے پیشتر[1] ہم نے خود کو دیکھا، کہ ہم لوگوں میں سب سے زیادہ قلیل تھے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ پر لازم ہے،[2] کہ وہ کسی گھر کو خیر سے لبریز نہیں کرتے، مگر اُسے آنسوؤں سے معمور کر دیتے ہیں۔‘‘ وَ سَأَلَہَا رَجُلٌ أَنْ تُحَدِّثَہٗ عَنْ أَمْرِہَا، فَقَالَتْ: (یعنی ہند بنت نعمان) سے کسی نے فرمائش کی، کہ وہ اُسے اپنے حالات کے بارے میں بتلائے، تو اُس نے کہا: ’’أَصْبَحْنَا ذَا صَبَاحٍ، وَ مَا فِيْ الْعَرَبِ أَحْدٌ إِلَّا یَرْجُوْنَا، ثُمَّ أَمْسَیْنَا وَ مَا فِيْ الْعَرَبِ أَحْدٌ إِلَّا یَرْحَمُنَا۔‘‘ [’’ہم نے صبح کی، تو ہم صبح والے (یعنی بڑی شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ والے) تھے۔ عرب میں سے ہر ایک ہم سے (خیر پانے کی) امید رکھتا تھا۔ پھر ہم نے شام کی، تو عرب میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا، مگر وہ ہم پر ترس کھاتا تھا (یعنی ہماری حالت قابل ترس ہو گئی)۔‘‘] ایک دن اس کی بہن حُرقہ بنت نعمان روئی، اور تب وہ اپنی شان و عظمت میں تھی،
[1] مقصود یہ ہے، کہ یہ انقلاب بہت قلیل مدّت میں رونما ہوا۔ [2] یعنی یہ سنتِ الٰہی اور دستور رب العالمین ہے، جو انہوں نے اپنے لیے بارے میں بنا رکھا ہے۔