کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 433
اس کے متوقع فائدہ اور ثمرہ کو بھی بیان فرمایا۔ قرآن کریم میں اُن کی یہ بات بایں الفاظِ مبارکہ بیان کی گئی ہے:
{فَاذْکُرُوْٓا اٰلَآئَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}[1]
[سو تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ]۔
نعمتوں کی یاد سے میسر آنے والی فلاح سے مراد:
حضرت ہود علیہ السلام نے اُن کے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنے پر اِس امید کا اظہار فرمایا، کہ شاید وہ اِس کی وجہ سے [فلاح] پا لیں۔
علامہ اصفہانی [اَلْفَلَاحْ] کا مفہوم بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اَلظَّفَرُ وَ إِدْرَاکُ الْبُغْیَۃِ۔[2]
[مقصد کو پانا اور حاصل کر لینا]۔
علامہ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
وَ ذٰلِکَ ضَرْبَانِ: دُنْیَوِيٌّ وَ أُخْرَوَيٌّ۔
فَالدُّنْیَوِيُّ: اَلظَّفَرُ بِالسَّعَادَاتِ الَّتِيْ تَطِیْبُ بِہَا حَیَاۃُ الدُّنْیَا۔
وَ فَلَاحٌ أُخْرَوِيٌّ: وَ ذٰلِکَ…۔[3]
[اور وہ دو قسموں کی ہے: دنیوی اور اخروی۔
پس دنیوی (فلاح یہ ہے، کہ): ایسی سعادتوں کا پانا، جن کے ساتھ دنیوی زندگی خوش گوار ہو جائے۔
اور اخروی فلاح (یہ ہے، کہ): وہ …]
جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنے کے سبب مصیبت زدہ شخص کو دنیوی زندگی کو
[1] سورۃ الأعراف/جزء من الآیۃ ۶۹۔
[2] المفردات في غریب القرآن، مادۃ ’’فلح‘‘، ص ۳۸۵۔
[3] المفردات في غریب القرآن، مادۃ ’’فلح‘‘، ص ۳۸۵۔