کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 424
اطمینان کا سبب (وہ) نور ہے، جو وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) اپنے ذکر کی وجہ سے مؤمنوں کے دلوں میں نازل فرماتے ہیں، تو وہ ان میں موجود بے چینی، وحشت اور اسی قسم کی دیگر چیزیں بہا لے جاتا ہے۔‘‘]
آیت شریفہ کے حوالے سے دو باتیں:
i: آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ذکرِ الٰہی سے دلوں کو حاصل ہونے والے اطمینان کے لیے فعل مضارع [تَطْمَئِنُّ] استعمال فرمایا۔ عربی میں [فعل مضارع] [زمانہ حال] اور [زمانہ مستقبل] دونوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس طرح معنی یہ ہو گا:
[سن لو! ذکرِ الٰہی ہی سے دل مطمئن ہوتے ہیں اور دل مطمئن ہوں گے]۔
ii: جملے [أَ لَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ] کی معمول کے مطابق حسبِ ذیل ترتیب ہوتی ہے:
[أَ لَا تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ بِذِکْرِ اللّٰہِ]
ترتیب میں تقدیم و تاخیر (آگے پیچھے کرنے) سے جملے میں حصر پیدا ہو گیا یا بالفاظِ دیگر جملے میں ایک کی بجائے دو معانی پیدا ہوں گے:
۱: سن لو! دلوں کا اطمینان ذکر الٰہی سے ہے۔
۲: سن لو! دلوں کا اطمینان ذکرِ الٰہی کے سوا کسی اور چیز سے نہیں۔
حکیم و خبیر خالق جل جلالہ کے اس فرمان کے بعد ناجائز چیزوں کے دیکھنے، سننے، کرنے، کھانے اور پینے سے اطمینان و سکون حاصل کرنے کی کوشش کے بے کار اور بے اثر ہونے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش کیسے باقی رہ سکتی ہے؟
ب: ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے رویات نقل کی ہے، کہ ان دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گواہی دی ہے، کہ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے