کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 423
دو مفسرین کے اقوال:
i: شیخ سعدی:
{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ} أَيْ: یَزُوْلُ قَلَقُہَا وَاضْطِرَابُہَا، وَتَحْضُرُھَا أَفْرَاحُُھَا وَلَذَّاتُہَا۔
{أَ لَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo} أيْ: حَقِیْقٌ بِہَا، وَحَرِيُّ أَنْ لَّا تَطْمَئِنَّ لِشَيْئٍ سِوٰی ذِکْرِہٖ، فَإِنَّہٗ لَا شَيْئَ أَلَذُّ لِلْقُلُوْبِ وَلَا أَشْہٰی وَلَا أَحْلٰی مِنْ مُحَبَّۃِ خَالِقِہَا، وَالْأُنْسِ بِہٖ وَمَعْرِفَتِہٖ۔‘‘[1]
[{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ} یعنی ان کے دلوں کا قلق اور اضطراب ختم ہو جاتا ہے اور خوشیاں اور لذتیں ان کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔
{اَ لَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ} یعنی دلوں کے لیے ضروری اور مناسب یہی ہے، کہ وہ ان کے ذکر کے علاوہ کسی اور چیز سے اطمینان نہ پائیں، کیونکہ دلوں کے لیے اپنے خالق کے ساتھ محبت، اُن سے لَو لگانے اور ان کی معرفت کے حاصل کرنے سے کوئی چیز بھی زیادہ لذیذ، مرغوب اور شیریں نہیں۔‘‘]
ii: شیخ آلوسی دلوں کے ذکرِ الٰہی کے ساتھ اطمینان پانے کا سبب بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’وَ الْأَوْلٰی أَنْ یُقَالَ: إِنَّ سَبَب الطَّمَأْنِیْنَۃِ نُوْرٌ یُفِیْضُہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْ[2] قَلْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِسَبَبِ ذِکْرِہٖ، فَیَذْھَبُ مَا فِیْہَا مِنْ الْقَلَقِ وَالْوَحْشَۃِ و نَحْوِ ذٰلِکَ۔‘‘[3]
[’’مناسب ترین بات یہ ہے، کہ (یہ) کہا جائے:
[1] تفسیر السعدي ص ۴۱۷-۴۱۸۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القاسمي ۹/۳۶۰۔
[2] مطبوعہ نسخہ میں [عَنْ] ہی ہے، لیکن شاید صحیح [فِيْ] یا [عَلٰی] ہے۔ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔
[3] روح المعاني ۱۳/۱۵۰۔