کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 415
سب تعریف اللہ تعالیٰ سارے جہانوں کے رب کے لیے]۔
انہوں (یعنی الحسن بن الحسن رضی اللہ عنہ ) نے کہا:
’’فَأَتَیْتُ الْحَجَّاجَ، فَقُلْتُہَا۔‘‘[1]
’’تو میں حجاج کے پاس پہنچا، تو میں نے وہ (یعنی مذکورہ بالا کلمات) کہے۔‘‘
اس (یعنی حجاج) نے کہا:
’’لَقَدْ جِئْتَنِيْ وَ أَنَا أُرِیْدُ قَتْلَکَ، فَأَنْتَ الْیَوْمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کَذَا وَ کَذَا۔‘‘[2]
[یقینا تم میرے پاس آئے، تو میں تمہیں قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور آج (یعنی اب) تم مجھے اس اس (چیز) سے زیادہ محبوب ہو۔]
- x -
[یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ]
امام ترمذی اور امام ابن سُنِّي نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
’’کَانَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم إِذَا کَرَبَہٗ أَمْرٌ، قَالَ:
’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سخت مشکل پیش آتی، تو آپ کہا کرتے تھے:
[یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ]۔ [3]
[1] ایک دوسری روایت میں ہے: ’’مجھے حجاج نے بلا بھیجا، تو میں نے انہیں پڑھا، تو وہ (یعنی حجاج) کہنے لگا: ’’وَ اللّٰہِ! لَقَدْ أَرْسَلْتُ إِلَیْکَ، وَ أَنَا أُرِیْدُ أَنْ أَقْتُلَکَ … (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۱/۱۴۷۔
[2] السنن الکبرٰی للنسائي، کتاب عمل الیوم واللیلۃ، ما یقول عند الکرب إذا نزل بہ، رقم الروایۃ ۱۰۴۰۴، ۹/۲۳۹۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے: اسے نسائی اور طبری نے حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (المرجع السابق ۱۱/۱۴۷)۔
[اللہ تعالیٰ کی قسم! یقینا میں نے تمہیں بلوایا اور میرا ارادہ تجھے قتل کرنے کا تھا…]۔
[3] جامع الترمذي، أبواب الدعوات، باب، رقم الحدیث ۳۷۵۷، ۹/۳۵۸؛ الفاظِ حدیث جامع الترمذي کے ہیں۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن الترمذي ۳/۱۷۲)۔