کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 414
أَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِعُذْرِہٖ۔‘‘
فَأُطْلِقَ۔[1]
انہوں (یعنی الحسن بن الحسن رضی اللہ عنہ ) نے انہیں (یعنی ان کلمات کو) کہا، تو عثمان نے اُن کی جانب اپنے سر کو اٹھایا۔ پھر کہا:
’’میں آدمی کا چہرہ دیکھ رہا ہو، (کہ) ان پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔ انہیں چھوڑ دو۔ میں عنقریب امیر المومنین کو اس کے عذر کے متعلق لکھوں گا۔‘‘
پس انہیں رہا کر دیا گیا۔‘‘]
ب: امام نسائی نے حضرت الحسن بن الحسن رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
[’’عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کا حجاج سے نکاح کیا اور اُن سے فرمایا:
’’إِنْ نَّزَلَ بِکِ الْمَوْتُ أَوْ أَمْرٌ مِنْ أُمُوْرِ الدُّنْیَا، فَاسْتَقْبِلِیْہِ بِأَنْ تَقُوْلِيْ:
’’اگر تم پر موت نازل ہو (یعنی موت کا وقت آ پہنچے یا دنیا کے (سنگین ) معاملات میں سے کوئی معاملہ درپیش ہو، تو اس کا مقابلہ یہ کہتے ہوئے کرنا:
[’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ،
سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ،
[اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ]‘‘
[ترجمہ:
کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالیٰ بہت بردبار نہایت کرم والے،
اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے، عرشِ عظیم کے رب
[1] بحوالہ: فتح الباري ۱۱/۱۴۷۔