کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 413
قاضی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ بات محلِّ نظر ہے، (کیونکہ) احادیث عام ہیں۔ (یعنی ان میں کسی کی تخصیص نہیں۔‘‘
میں (یعنی علامہ نووی) کہتا ہوں: ’’صحیح یہ ہے، کہ یقینا وہ (فضائل صرف) مخصوص (لوگوں کے لیے نہیں)۔‘‘ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔[1]
وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے لیے اس دعا کا فیض سب اہلِ اسلام کو عطا فرمانا چنداں مشکل نہیں۔
ا: امام ابن ابی الدنیا نے اپنی کتاب [اَلْفَرَجُ بَعْدَ الشِّدَّۃِ] میں عبدالملک بن عمیر کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
[’’ولید بن عبدالملک نے عثمان بن حیان کو لکھا:
’’الحسن بن الحسن- رضی اللہ عنہ - کو دیکھو اور انہیں سو کوڑے مارو اور انہیں لوگوں کے سامنے کھڑا کرو۔‘‘
انہوں (یعنی راوی) نے بیان کیا: ’’پس انہیں لایا گیا، تو علی بن الحسین- رضی اللہ عنہ - اُن کی جانب اُٹھے اور کہا:
’’یَا ابْنَ عَمٍّ! تَکَلَّمْ بِکَلِمَاتِ الْفَرَجِ، یُفَرِّجُ اللّٰہُ عَنْکَ۔‘‘
…فَذَکَرَ حَدِیْثَ عَلِيٍّ رضی اللّٰه عنہ …۔
[اے (میرے) چچا کے بیٹے! مصیبت (کو دُور کرنے) والے کلمات بولو، اللہ تعالیٰ آپ سے (مصیبت) دُور فرما دیں گے]۔
…انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی (روایت کردہ) حدیث ذکر کی…۔
فَقَالَہَا، فَرَفَعَ إِلَیْہِ عُثْمَانُ رَأْسَہٗ، فَقَالَ:
’’أَرٰی وَجْہَ رَجُلٍ کُذِبَ عَلَیْہِ، خَلُّوْا سَبِیْلَہٗ۔ فَسَأَکْتُبُ إِلٰی
[1] شرح النووي ۱۷/۴۸۔