کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 412
[ترجمہ: جب میرے بندے کو میری ثنا نے مجھ سے سوال کرنے سے مشغول کر دیا، تو میں اُسے سوال کرنے والوں سے افضل عطا کرتا ہوں۔]
مزید برآں (ایک ذکر کو) حدیث میں دعا کا نام دیا گیا ہے، حالانکہ اس میں نہ دعا ہے اور نہ ہی فرمائش۔
امام نسائی نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مچھلی والے کی دعا، جب انہوں نے اس کے ساتھ مچھلی کے پیٹ میں دعا کی:
[لَآ إِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ]
[ترجمہ: کوئی معبود نہیں مگر آپ۔ آپ (ہر عیب سے) پاک ہیں، بلاشبہ میں ظالموں میں سے تھا]۔
پس یقینا کوئی مسلمان، کسی چیز کے بارے میں اس کے ساتھ دعا نہیں کرتا، مگر اس کے لیے قبول کیا جاتا ہے۔‘‘[1]،[2]
iii: علّامہ نووی اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’قاضی عیاض نے بیان کیا: ’’بعض علماء نے کہا: ان اذکار کے مذکورہ فضائل دین میں بلند مقام رکھنے والے اور کبیرہ گناہوں سے پاک لوگوں کے لیے ہیں۔ (ان گناہوں پر) اصرار کرنے والے اور دیگر لوگوں کے لیے نہیں۔‘‘
[1] حدیث کے حوالے کے لیے اس کتاب کا ص … دیکھیے۔
[2] المفہم ۷/۵۶۔۵۷ باختصار۔ علّامہ قرطبی کی مذکورہ بالا بات کی تائید امام ترمذی اور امام نسائی کی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کردہ حدیث سے ہوتی ہے، (کہ) وہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’وَ أَفْضَلُ الدُّعَآئِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔‘‘ (حدیث کے حوالے کے لیے کتاب [اذکارِ نافعہ] ص … دیکھیے۔ امام ترمذی، حافظ ابن حجر اور شیخ البانی نے اسے [حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۹/۲۲۹۔۲۳۰؛ ونتائج الأفکار ۱/۶۲، وصحیح سنن الترمذي ۳/۱۴۰)۔