کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 389
’’ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہیں اور وہ بہترین کارساز ہیں۔‘‘]
ان کلمات کے ساتھ دعا کی قبولیت:
i: رب کریم نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی فریاد قبول فرمائی جیسے کہ انہوں نے خود خبر دی ہے:
{قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَأَلْقُوہُ فِی الْجَحِیْمِ۔ فَأَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاہُمُ الْأَسْفَلِیْنَ}[1]
[انہوں نے کہا: ’’اس کے لیے ایک عمارت بناؤ، پھر اُسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو۔‘‘
پس انہوں نے اُن (یعنی ابراہیم علیہ السلام ) کے خلاف سازش کرنا چاہی، تو ہم نے انہی کو سب سے نیچا کر دیا]۔
ایک دوسرے مقام پر رب تعالیٰ نے فرمایا:
{قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَ انْصُرُوْٓا اٰلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ۔ قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی إِبْرٰہِیْمَ۔ وَ أَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْأَخْسَرِیْنَ}[2]
[انہوں نے کہا: ’’اُسے جلا دو۔ اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو، تو اپنے معبودوں کی مدد کرو۔‘‘
ہم نے کہا: ’’اے آگ! تو ابراہیم- علیہ السلام - پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔‘‘
اور انہوں نے اُن کے خلاف سازِش کا ارادہ کیا، تو ہم نے اُنہی کو سب سے زیادہ خسارے والے کر دیا]۔
[1] سورۃ الصآفات / الآیتین ۹۷ و ۹۸۔
[2] سورۃ الأنبیآء / الآیات ۶۸-۷۰۔