کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 388
i: [حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ] [ترجمہ: ہمارے لیے اللہ تعالیٰ (ہر غم میں مبتلا کرنے والی بات کے مقابلے میں[1]) کافی ہیں اور وہ بہترین کارساز ہیں (یعنی بندوں کے معاملات کی تدبیر اور اُن کے مفادات اور مصالح کی نگہبانی اُنہی کو سونپی جاتی ہے)۔] [2] دو دلیلیں: ا: امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، کہ: [حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ] قَالَہَا إِبْرَاہِیْمُ علیہ السلام حِیْنَ أُلْقِيَ فِيْ النَّارِ، وَ قَالَہَا مُحَمَّدٌ صلي اللّٰه عليه وسلم حِیْنَ قَالُوْا: {إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ}[3]،[4] [حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ] [5] (حضرت) ابراہیم علیہ السلام نے یہ (دعا) پڑھی، جب انہیں آگ میں ڈالا گیا، اور (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی) یہ (دعا) پڑھی، جب انہوں (یعنی لوگوں) نے کہا: ’’(بے شک لوگوں نے تمہارے لیے (فوج) جمع کر لی ہے، سو تم اُن سے ڈرو۔‘‘ تو اس (خبر) نے انہیں ایمان میں زیادہ کر دیا اور انہوں نے کہا:
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر السعدي ص ۱۵۷۔ [2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ص ۱۵۷۔ [3] سورۃ آل عمران/ جزء من الآیۃ ۱۷۳۔ [4] صحیح البخاري، کتاب التفسیر، باب (الذین قال لہم الناس … الآیۃ)، رقم الحدیث ۴۵۶۳، ۸/۲۲۹۔ [5] جب ابو سفیان نے غزوۂ احد کے بعد …جس میں، وہ مشرکین مکہ کی فوج کا سپہ سالار تھا… نے کچھ لوگوں کے ذریعہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ارسال کی، کہ ابو سفیان اور اس کے ساتھی حملہ آور ہونے کی خاطر دوبارہ آ رہے ہیں، تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۸/۲۲۹)۔