کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 378
تو انہوں نے مجھے تہمت باندھنے والوں کی بات بتلائی۔ اس سے میری بیماری مزید بڑھ گئی۔ جب میں اپنے گھر لوٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے (اُن کا مقصود یہ تھا، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا اور پھر فرمایا: ’’تم کیسے ہو؟‘‘ فَقُلْتُ: ’’أَتَأْذَنُ لِيْ أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ؟‘‘ قَالَتْ: ’’وَأَنَا حِیْنَئِذٍ أُرِیْدُ أَنْ أَسْتَیْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِہِمَا‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’کیا آپ مجھے اپنے والدین کے ہاں جانے کی اجازت دیں گے؟‘‘ انہوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے بیان کیا: ’’میرا مقصد والدین کی جانب سے اس خبر کی حقیقت معلوم کرنے کا تھا۔‘‘ قَالَتْ: ’’فَأَذِنَ لِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَجِئْتُ أَبَوَيَّ، فَقُلْتُ لِأُمِّيْ: ’’یَا أُمَّتَاہْ مَا یَتَحَدَّثُ النَّاسُ؟‘‘ انہوں نے بیان کیا: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی اور اپنے والدین کے ہاں آ گئی۔ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا: ’’اے میری ماں! لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ قَالَتْ: ’’یَا بُنَیَّۃُ! ہَوِّنِيْ عَلَیْکِ۔‘‘ اُنہوں نے فرمایا: ’’اے میری چھوٹی سی (یعنی پیاری) بیٹی! صبر کرو۔‘‘ قَالَتْ: ’’فَقُلْتُ: ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ! أَوَلَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِہَذَا؟‘‘ قَالَتْ: ’’فَبَکَیْتُ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ حَتّٰی أَصْبَحْتُ، لَا یَرْقَأُ لِيْ دَمْعٌ وَلَا أَکْتَحِلُ بِنَوْمٍ، حَتّٰی أَصْبَحْتُ أَبْکِيْ۔