کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 377
مدینہ (طیبہ) پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور ایک مہینہ تک بیمار رہی۔ (اس عرصے میں) لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا بہت چرچا رہا، (لیکن) مجھے اُن (باتوں) میں سے کسی چیز کا احساس (بھی) نہیں تھا۔ صرف ایک معاملے سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا، کہ میں اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ شفقت نہیں دیکھ رہی تھی، جو کہ اپنی پہلی بیماریوں میں دیکھا کرتی تھی۔ میں بیماری سے افاقہ ہونے پر ام مسطح- رضی اللہ عنہا - کے ساتھ [المناصع] کی طرف گئی۔ اُن کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں اور ان کا بیٹا مسطح بن اثامہ تھا۔ اپنے کام (یعنی حاجت) سے فارغ ہو کر میں اور ام مسطح، میرے گھر کی جانب، چل رہی تھی، تو ام مسطح کا قدم اُن کی اپنی چادر میں الجھ کر پھنس گیا، تو انہوں نے کہا: ’’مسطح برباد ہو گیا۔‘‘ فَقُلْتُ لَہَا: ’’بِئْسَ مَا قُلْتِ، أَتَسُبِّینَ رَجُلًا شَہِدَ بَدْرًا؟‘‘ میں نے اُن سے کہا: ’’آپ نے بُری بات کہی ہے۔ کیا آپ ایک ایسے شخص کو بُرا بھلا کہہ رہی ہیں، جس نے (غزوۂ) بدر میں شرکت کی؟‘‘ قَالَتْ: ’’أَیْ ہَنْتَاہْ! أَوَلَمْ تَسْمَعِيْ مَا قَالَ؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے لڑکی؟ کیا تم نے وہ نہیں سنا، جو اُس نے کہا ہے؟ قَالَتْ: ’’قُلْتُ: ’’وَمَا قَالَ؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’میں نے پوچھا: ’’اُس نے کیا کہا ہے؟‘‘ فَأَخْبَرَتْنِیْ بِقَوْلِ أَہْلِ الْإِفْکِ، فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَی مَرَضِيْ۔ فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی بَیْتِيْ، وَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم تَعْنِيْ سَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: ’’کَیْفَ تِیکُمْ؟‘‘