کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 366
i: تسلسل سے دعا کرنے سے …جیسا کہ علامہ طیبی نے بیان کیا ہے… قضا کے آنے کو، (وہ جیسی بھی ہو،) بندے کے لیے خوش گوار کر دیا جاتا ہے، تو اس طرح گویا کہ، دعا نے اسے ردّ کر دیا۔[1] یا بالفاظِ دیگر …بقول علّامہ مناوی… قضا کو اس کے لیے سہل بنا دیا جاتا ہے، تو گویا، کہ دعا نے اُسے ردّ ہی کر دیا۔[2] ii: یہاں [تقدیر] سے مراد وہ [تقدیر] ہے، جو کہ، اگر دعا نہ کی جاتی، تو واقع ہونے والی تھی۔[3] قاضی (عیاض) رقم طراز ہیں: اَلْمُرَادُ اَنَّ الْقَضَآئَ قِسْمَانِ: جَازِمٌ لَا یَقْبَلُ الرَّدَّ وَالتَّعْوِیْقَ، وَمُعَلَّقٌ وَھُوَ أَنْ یَقْضِيَ اللّٰہُ أَمْرًا مَفْعُوْلًا مَا لَمْ یَرُدَّہٗ عَآئِقٌ، وَذٰلِکَ الْعَآئِقُ لَوْ وُجِدَ، کَانَ ذٰلِکَ أَیْضًا قَدْرًا مَقْضِیًّا۔[4] [مراد یہ ہے، کہ [قضا] دو قسموں کی ہے۔ [قضا جازم]، جو کہ ردّ نہیں ہوتی اور نہ رکتی ہے۔ اور [معلّق] کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا ہو، کہ اگر رکاوٹ نہ ہوئی، تو وہ ہونے والا ہے۔ اگر وہ رکاوٹ پائی گئی، تو اُس (رکاوٹ) کا ہونا بھی فیصلہ شدہ تقدیر (ہی) تھا۔] ۳: امام ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إِنَّ الدُّعَآئَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَ مِمَّا لَمْ یَنْزِلْ، فَعَلَیْکُمْ عِبَادَ اللّٰہِ بِالدُّعَآئِ۔‘‘[5]
[1] شرح الطیبي ۱۰/۳۱۶۴۔ [2] ملاحظہ ہو: فیض القدیر ۶/۴۵۰۔ [3] ملاحظہ ہو: شرح الطیبي ۱۰/۳۱۶۴۔ [4] دیکھیے: فیض القدیر ۶/۴۵۰۔ [5] جامع الترمذي ، أبواب الدعوات، باب ، رقم الحدیث ۳۷۸۰ ، ۹؍۳۷۴۔ شیخ البانی نے [اسے حدیث کو حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۹/۳۷۴؛ و صحیح سنن الترمذي ۳؍۱۷۸)۔