کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 347
میں آنے والے کسی بھی مرغوب گناہ سے احتراز نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنی اس کیفیت کو درجِ ذیل تین جملوں میں بیان کیا ہے: i: [مَنْ عَمِلَ الذُّنُوْبَ کُلَّہَا] [جس شخص نے تمام گناہوں کا ارتکاب کیا ہو]۔ ii: [فَلَمْ یَتْرُکْ مِنْہَا شَیْئًا] [پس اس نے اُن (یعنی گناہوں) میں سے کسی کو چھوڑا نہ ہو]۔ iii: [وَ ھُوَ فِيْ ذٰلِکَ لَمْ یَتْرُکْ حَآجَۃً وَ لَا دَآجَۃً إِلَّا أَتَاھَا] [اور اُس نے اس سلسلے میں کسی ایسے صغیر کبیرہ گناہ سے گریز نہیں کیا، جس کے ارتکاب کی اُس کے نفس نے رغبت کی]۔ امام ابن اثیر رقم طراز ہیں: اس کا معنیٰ یہ ہے، کہ میرے نفس نے مجھے کسی گناہ کی طرف دعوت نہیں دی، مگر میں نے اُس کا ارتکاب کیا اور [دَاجَۃً] سے مقصود رغبت اور پسند کے پیچھے لگنا ہے۔[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو توحید و رسالت کی گواہی دینے کے بعد حسبِ ذیل دو کام کرنے کی تلقین فرمائی: ا: نیکیوں کا کرنا ب: بُرائیوں کا چھوڑنا اور اس کی جانب سے ان دو باتوں کے کرنے پر عظیم الشان ثمرہ پانے کی بشارت دی اور وہ یہ تھی، کہ: اللہ تعالیٰ اُس کی تمام ہر قسم کی برائیوں کو نیکیوں سے تبدیل فرما دیں گے۔
[1] النہایۃ في غریب الحدیث والأثر، مادۃ ’’حوج‘‘ ۱/۴۵۶۔۴۵۷؛ نیز ملاحظہ ہو: غریب الحدیث للحافظ ابن الجوزي، باب الحاء مع الواو، ۱/۲۵۰۔