کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 346
عرض کیا: ’’أَمَّا أَنَا فَأَشْہَدُ أَنْ لَّآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔‘‘ [’’جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں گواہی دیتا ہوں، کہ کوئی معبود نہیں، مگر اللہ تعالیٰ اور یقینا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- ہیں۔‘‘] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تَفْعَلُ الْخَیْرَاتِ، وَ تَتْرُکُ السَّیِّئَآتِ، فَیَجْعَلُہُنَّ اللّٰہُ لَکَ خَیْرَاتٍ کُلَّہُنَّ۔‘‘ [’’اچھے اعمال کرو اور بُرائیاں چھوڑ دو، تو اللہ تعالیٰ اُن سب (بُرائیوں) کو تمہارے لیے نیکیاں بنا دیں گے۔‘‘] عرض کیا: ’’وَ غَدَرَاتِيْ وَ فَجَرَاتِيْ۔‘‘ [’’اور میری غداریاں اور بدکاریاں (یعنی کیا وہ بھی نیکیوں میں بدل دی جائیں گی؟‘‘] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’نَعَمْ۔‘‘ کہا (یعنی پکار اُٹھا): ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔‘‘ [’’اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں۔‘‘] (یعنی خوشی سے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔) فَمَا زَالَ یُکَبِّرُ حَتّٰی تَوَارٰی۔‘‘[1] [(راوی نے بیان کیا): وہ [اللہ اکبر] کہتا رہا، یہاں تک کہ (نگاہوں سے) اوجھل ہو گیا۔‘‘] حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس شخص- رضی اللہ عنہ - نے اپنے دائرۂ طاقت
[1] بحوالہ: مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب الإیمان، باب الإسلام یجبّ ما قبلہ، ۱/۳۱۔۳۲۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں: ’’طبرانی نے اسے روایت کیا۔ بزار نے بھی قریب قریب انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ محمد بن ہارون ابو نشیط کے علاوہ بزار کے تمام راویان [صحیح کے راویان] ہیں اور محمد بن ہارون ثقہ ہیں۔‘‘ (المرجع السابق ۱/۳۲)۔