کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 344
فَقَالَ: ’’تَفْعَلِینَ أَنْتِ ہَذَا، وَمَا فَعَلْتِہِ! اذْہَبِيْ فَہِيَ لَکِ۔‘‘ وَقَالَ: ’’لَا، وَاللّٰہِ لَا أَعْصِيْ اللّٰہَ بَعْدَہَا أَبَدًا۔‘‘ فَمَاتَ مِنْ لَیْلَتِہِ، فَأَصْبَحَ مَکْتُوبًا عَلٰی بَابِہٖ: ’’إِنَّ اللّٰہَ قَدْ غَفَرَ لِلْکِفْلِ۔‘‘[1] [’’بنو اسرائیل میں سے کفل (نامی شخص) کسی بھی گناہ کے کرنے سے گریز نہ کرتا تھا۔ اُس کے پاس ایک خاتون آئی، تو اُس نے اُسے ساٹھ دینار اس شرط پر دئیے، کہ وہ اس کے ساتھ برائی کرے گا۔ جب وہ اُس (عورت) کے ساتھ خاوند کے بیوی کے ساتھ بیٹھنے کی شکل میں بیٹھا، تو اس (خاتون کے جسم) میں کپکپی طاری ہو گئی اور وہ رونے لگی۔ تو اس نے کہا: ’’تمہارے رونے کا کیا سبب ہے؟ (کیا) میں نے تمہیں مجبور کیا ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا: ’’نہیں، لیکن یہ (ایسا) کام ہے، کہ میں نے (اس سے پہلے) کبھی نہیں کیا۔ (میری) محتاجی نے مجھے اس پر آمادہ کیا۔‘‘ اُس نے کہا: ’’تم یہ کر رہی ہو (یعنی تمہاری صورتِ حال یہ ہو چکی ہے)، حالانکہ تم نے ابھی یہ (بُرائی) کی (بھی) نہیں۔ چلی جاؤ، (جو ساٹھ دینار دے چکا ہوں،) سو وہ تیرے ہی ہیں۔‘‘
[1] المسند، رقم الحدیث ۴۷۴۷، ۶/۳۳۴۔۳۳۶، (ط: دار المعارف بمصر)؛ وجامع الترمذي، أبواب صفۃ القیامۃ، باب، ۲۶۱۴، ۷/۱۶۷۔۱۶۸؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب التوبۃ والإنابۃ، ۴/۲۵۴۔۲۵۵۔ الفاظِ حدیث ترمذی کے ہیں۔ امام ترمذی نے اسے [حسن]، امام حاکم نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی اور شیخ احمد شاکر نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۷/۱۶۸؛ والمستدرک علی الصحیحین ۴/۲۵۵؛ والتلخیص ۴/۲۵۵؛ وھامش المسند ۶/۳۳۴)۔