کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 331
[’’آپ کے پاس لوگ الگ الگ شکایتیں لائے، تو آپ نے سب کو گناہوں کی معافی طلب کرنے کا حکم دیا (یعنی سب کو ایک ہی بات کا حکم دیا)۔‘‘] انہوں نے جواب دیا: ’’مَا قُلْتُ مِنْ عِنْدِيْ شَیْئًا۔ إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ فِيْ سُوْرَۃِ نُوْحٍ علیہ السلام: {فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا۔ وَّیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہٰرًا}[1]،[2] [تم اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑے بخشنے والے ہیں۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائیں گے اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کریں گے اور تمہارے لیے باغات بنائیں گے اور تمہارے لیے نہریں بنائیں گے]۔ سلف میں سے ایک شخص کا واقعہ: امام ابن قیم بیان کرتے ہیں: ’’سلف میں سے ایک شخص کو ایک آدمی ملا، تو اُس نے اُن کے ساتھ سخت کلامی کی اور بُرا بھلا کہا۔ انہوں نے اُس آدمی سے کہا: ’’قِفْ حَتّٰی أَدْخُلَ الْبَیْتَ، ثُمَّ أَخْرُجَ إِلَیْکَ۔‘‘ [’’ٹھہرئیے، یہاں تک کہ میں گھر سے ہو کر تمہارے پاس واپس آؤں۔‘‘]
[1] سورۃ نوح- علیہ السلام - / الآیات ۱۰-۱۲۔ [2] تفسیر القرطبي ۱۸/۳۰۲-۳۰۳۔ نیز ملاحظہ ہو: الکشاف ۴/۱۶۲؛ و المحرّر الوجیز ۱۶/۱۲۳؛ و شرح الطیبي ۶/۱۸۴۷؛ و مرقاۃ المفاتیح ۵/۱۷۱۔