کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 329
[’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی کثرت سے معافی طلب کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر مشکل سے نکلنے کی راہ بنا دیں گے اور اُسے وہاں سے رزق دیں گے، جہاں سے اُس کا وہم و گمان بھی نہیں ہو گا۔‘‘] شرحِ حدیث: ایک دوسری روایت میں ہے: ’’مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ‘‘[1] [’’جو شخص استغفار سے چمٹ جائے۔‘‘] ملا علی قاری لکھتے ہیں: أَيْ: عِنْدَ صُدُوْرِ مَعْصِیَۃِ وَ ظَہُوْرِ بَلِیَّۃٍ أَوْ مَنْ دَاوَمَ عَلَیْہِ، فَإِنَّہٗ فِيْ کُلِّ نَفْسٍ یَحْتَاجُ إِلَیْہِ، وَ لِذَا قَالَ صلي اللّٰه عليه وسلم : ’’طُوْبٰی لِمَنْ وَجَدَ فِيْ صَحِیْفَتِہٖ اِسْتِغْفَارًا کَثِیْرًا۔‘‘[2] یعنی: گناہ کے سرزد ہونے اور مصیبت کے ظاہر ہونے پر یا (مراد یہ ہے)، کہ وہ اس پر مواظبت کرے (یعنی ہمیشہ استغفار کرتا رہے)، کیونکہ وہ ہر سانس کے ساتھ اس کا محتاج ہے۔‘‘] حسن بصری کا واقعہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس چار مختلف اشخاص اپنی جُدا جدا مصیبتیں لائے، انہوں نے اُن میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے کی تلقین کی۔ علامہ قرطبی نے ابن صبیح نے نقل کیا ہے، کہ اُنہوں نے بیان کیا: ’’شَکَا رَجُلٌ إِلَی الْحَسَنِ الْجَدُوْبَۃَ۔‘‘
[1] سنن أبي داود کے الفاظ بھی یہی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: سنن أبي داود ۴/۲۶۷)۔ [2] ملا علی قاری لکھتے ہیں: اسے (امام) ابن ماجہ نے [حسن صحیح سند] کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۵/۱۷۰)۔