کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 328
-۱۰- بہت زیادہ استغفار کرنا ہمیں پہنچنے والی مصیبتیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ مصیبتوں کا نشانہ بننے والے پر لازم ہے، کہ وہ رب کریم سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے اور اُن کے حضور توبہ کریں۔ شاید کہ مولائے کریم اُس کی توبہ قبول فرما لیں اور اُس کی تنگی کو آسانی اور پریشانی کو راحت سے تبدیل فرما دیں۔ کثرت استغفار کے مصیبتوں سے چھٹکارا دلوانے کی دلیل: حضراتِ ائمہ احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ أَکْثَرَ مِنَ الْاِسْتِغْفَارِ جَعَلَ اللّٰہُ لَہٗ مِنْ کُلِ ھَمٍّ فَرَجًا، وَ مِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَخْرَجًا، وَ رَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ۔‘‘[1]
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۲۳۴، ۴/۵۵۔۵۶ (ط: مصر)؛ و سنن أبي داود، تفریع أبواب الوتر، باب في الاستغفار، رقم الحدیث ۱۵۱۵، ۴/۲۶۷؛ وکتاب السنن الکبرٰی، کتاب عمل الیوم واللیلۃ ثواب ذٰلک، (یعني ثواب کثرۃ الاستغفار)، رقم الحدیث ۱۰۲۹۰/۲، ۶/۱۱۸؛ وسنن ابن ماجہ، أبواب الأدب، باب الاستغفار، رقم الحدیث ۳۸۶۴، ۲/۳۳۹؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب التوبۃ والإنابۃ، ۴/۲۶۲۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔بعض محدثین نے ایک راوی کی وجہ سے اس حدیث کو [ضعیف] کہا ہے۔ (دیکھیے: التلخیص ۴/۲۶۲؛ و عون المعبود ۴/۲۶۷؛ و ضعیف سنن أبي داود للشیخ الألباني ص ۱۴۹)؛ لیکن امام حاکم اور شیخ احمد محمد شاکر نے [اس کی سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ شیخ احمد شاکر نے راوی پر نقد کا بھی جواب دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک ۴/۲۶۲؛ و ہامش المسند ۴/۵۵)۔