کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 323
کیا: ’’لَقَدْ رَأَیْتُنَا لَیْلَۃَ بَدْرٍ، وَ مَا مِنَّا إِلَّا نَآئِمٌ، إِلَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَإِنَّہٗ کَانَ یُصَلِّيْ إِلٰی شَجَرَۃٍ، وَ یَدْعُوْ حَتّٰی أَصْبَحَ۔‘‘[1] یقینا ہم نے بدر کی شب خود کو دیکھا۔ ہم سب سوئے ہوئے تھے، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، کہ وہ ایک درخت کی جانب (رخ کر کے) نماز پڑھ رہے تھے [یعنی درخت کو سُترہ بنا کر نماز میں مشغول رہے] اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح ہونے تک دعا کرتے رہے۔‘‘] ج: غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے حملہ آور ہونے والے دشمنوں کے خلاف نصرت و اعانت طلب کی۔ امام احمد نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’وَاللّٰهِ لَقَدْ رَأَیْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم بِالْخَنْدَقِ۔ وَ صَلَّی رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم مِنَ اللَّیْلِ ہَوِیًّا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: ’’مَنْ رَجُلٌ یَقُومُ، فَیَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ … یَشْتَرِطُ لَہُ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنَّہُ یَرْجِعُ … أَدْخَلَہُ اللّٰهُ الْجَنَّۃَ۔‘‘ [’’و اللہ! ہم نے خود کو (غزوۂ) خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طویل وقت تک نماز پڑھتے رہے۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: [’’قوم (یعنی مدینہ طیبہ پر چڑھائی کی غرض سے آنے والے دشمن) کی خبر لانے کی غرض سے کون شخص اٹھتا ہے؟ -رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی واپسی کی ضمانت دیتے ہیں- اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔‘‘]
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۱۶۱، ۲/۲۷۱۔ (ط۔ دار المعارف بمصر)۔ شیخ احمد البنا اور شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني ۲۱/۳۶؛ وھامش المسند للشیخ أحمد شاکر ۲/۲۷۱)۔