کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 322
کرنے میں اپنی عافیت سمجھی۔[1]
قصہ پر تبصرہ:
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
’’وَ فِیْہِ أَنَّ مَنْ نَابَہٗ أَمْرٌ مُہِمٌّ مِنَ الْکَرْبِ، یَنْبَغِيْ لَہٗ أَنْ یَفْزَعَ إِلَی الصَّلَاۃِ۔‘‘[2]
[’’اس میں یہ (نصیحت) ہے، کہ جسے کوئی سنگین غم آ پہنچے، تو اُسے چاہیے، کہ نماز کی طرف لپکے۔‘‘]
iii: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کے ساتھ مدد طلب کرنا:
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ درپیش آتا یا غم لاحق ہوتا، تو نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و اعانت طلب کرتے۔ اس سلسلے میں ذیل میں تین دلائل ملاحظہ فرمائیے:
ا: امام ابو داؤد نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
’’کَانَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم إِذَا حَزَبَہٗ أَمْرٌ صَلّٰی۔‘‘[3]
[’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا یا غم پہنچتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے۔‘‘]
ب: امام احمد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان
[1] اس واقعہ کی تفصیل اسی کتاب کے صفحات … میں دیکھیے۔
[2] فتح الباري ۶/۳۹۴۔
[3] سنن أبي داود، أبواب قیام اللیل، باب وقت قیام النبي صلي الله عليه وسلم من اللیل، رقم الحدیث ۱۳۱۵، ۴/۱۴۲۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود ۱/۲۴۵)۔