کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 313
علاوہ ازیں مصیبت میں مبتلا شخص یہ بات پیشِ نظر رکھے، کہ اس کا واویلا کرنا اس کے دشمن کو خوش، دوست کو پریشان، اس کے رب تعالیٰ کو ناراض، شیطان کو خوش، اس کے اجر کو ضائع اور اس کے نفس کو کمزور کرتا ہے۔ جب وہ ثواب کے حصول کی غرض سے صبر کرتا ہے، تو اپنے (ساتھ چمٹے ہوئے) شیطان کا زور توڑ کر، اُسے ذلیل کر کے دُور کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے رب تعالیٰ کو راضی، دوست کو خوش اور دشمن کو پریشان کرتا ہے۔ وہ اس قابل ہو جائے گا، کہ اپنے (مصیبت زدہ) بھائیوں کا بوجھ اُٹھائے۔ اس کی بجائے کہ وہ اسے دلاسا اور تسلی دیں، وہ خود انہیں تسلّی دینے کی پوزیشن میں ہو گا۔ یہی ثبات اور سب سے بڑا کمال ہے۔ رخساروں کے پیٹنے، گریبانوں کے چاک کرنے، اپنے لیے تباہی اور بربادی کی بددعا کرنے اور تقدیر پر خفا ہونے میں تو کوئی کمال کی بات نہیں۔ اگر مصیبت زدہ شخص یہ باتیں یاد رکھے گا، تو حکمِ الٰہی سے یہ باتیں صبر کرنے میں اس کی ممد و معاون ہوں گی۔[1]  -۹-
[1] ملاحظہ ہو: زاد المعاد ۴/۱۹۱۔