کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 312
صبر پر آمادہ کرنے والی ایک بات یہ ہے، کہ مصیبت زدہ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھے، کہ بے صبری اس کے لیے ضرر رساں ہے، مفید نہیں۔ وہ مصیبت کو دُور تو نہیں کرتی، البتہ اس میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ امام ابن قیم کا بیان: وَمِنْ عِلَاجِہَا أَنْ یَعْلَمَ أَنَّ الْجَزَعَ لَا یَرُدُّہَا، بَلْ یُضَاعِفُہَا، وَہُوَ فِيْ الْحَقِیْقَۃِ مِنْ تَزَایُدِ الْمَرَضِ۔‘‘[1] [’’اور اس (یعنی مصیبت کی تیش اور غم) کے علاج میں سے ہے، کہ وہ (اچھی طرح) سمجھ لے، کہ یقینا رونا پیٹنا مصیبت کو دُور نہیں کرتا، بلکہ اُسے دو چند کرتا ہے۔ وہ درحقیقت بیماری کا بڑھانا ہے۔‘‘] عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کے اشعار: کَمْ مِنْ أَخٍ لِّيْ صَالِحٍ بَوَّاْتُہٗ بِیَدَیَّ لَحْدًا مَا إِنْ جَزِعْتُ وَلَا ہَلِعْ تُ وَلَا یَرُدُّ بُکَائِيْ زَنْدًا[2] [میرے کتنے ہی صالح بھائی تھے، میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے انہیں قبر میں اُتارا، میں نے واویلا نہ کیا اور نہ ہی بے صبری کی اور میرا رونا (کسی حقیر ترین چیز، جیسے) آگ کو روشن کرنے کی لکڑی کو بھی واپس نہیں لا سکتا]۔
[1] زاد المعاد ۴/۱۹۱۔ [2] الحماسۃ لأبي تمام الطائي ص ۱/۱۰۵۔