کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 311
قَالَ بَعْضُ الْحُکَمَآئِ: ’’اَلْعَاقِلُ یَفْعَلُ فِيْ أَوَّلِ یَوْمٍ مِنَ الْمُصِیْبَۃِ مَا یَفْعَلُہُ الْجَاہِلُ بَعْدَ أَیَّامٍ۔ وَمَنْ لَمْ یَصْبِرْصَبْرَ الْکِرَامِ سَلَا سُلُوَّ الْبَہَآئِمِ۔ وَفِيْ الصَّحِیْحِ مَرْفُوْعًا : ’’ اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی۔‘‘ وَقَالَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَیْسٍ: ’’ إِنَّکَ إِنْ صَبَرْتَ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا ، وَإِلَّاسَلَوْتَ سُلُوَّ الْبَہَآئِمِ۔‘‘[1] [’’اور اس (یعنی مصیبت کی تپش اور اس کے غم) کے علاج میں سے یہ ہے، کہ وہ (اچھی طرح) سمجھ لے، کہ جزع و فزع کی انتہا کو بھی پہنچ کر آخرِکار اسے مجبور ہو کر صبر ہی کرنا ہے اور ایسا صبر نہ تو قابلِ تعریف ہے اور نہ ہی اس پر ثواب ہے۔ بعض حکماء نے بیان کیا: ’’عاقل مصیبت کے (آنے پر) پہلے ہی دن وہ کرتا ہے، جو جاہل اُس کے (آنے کے) کئی دن بعد کرتا ہے۔ جو شخص باعثِ عزت صبر نہیں کرتا، وہ چوپاؤں کی طرح (وقت کے گزرنے کے ساتھ مصیبتوں) کو بھول جاتا ہے۔ صحیح (بخاری و مسلم) میں مرفوعا ہے: ’’صبر پہلی چوٹ کے موقع پر ہے۔‘‘ اشعث بن قیس نے فرمایا: ’’بلاشبہ اگر تم نے (اللہ تعالیٰ پر) ایمان لاتے ہوئے اور ثواب حاصل کرنے کی غرض سے صبر کیا، (تو ٹھیک)، وگرنہ تم اسی طرح (مصیبت کو) بھول جاؤ گے، جیسے چوپائے بھول جاتے ہیں۔‘‘ ۴: جزع و فزع کا مصیبت زدہ کو نقصان پہنچانا:
[1] زاد المعاد ۴/۱۹۳۔