کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 309
’’إِلَیْکَ عَنِّيْ، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِیبَتِيْ۔‘‘ وَلَمْ تَعْرِفْہُ۔ [’’مجھ سے چلے جائیے، کیونکہ آپ کو تو میری مصیبت نہیں پہنچی۔ (یعنی آپ میری مصیبت کی شدّت کو نہیں جانتے‘‘]۔ اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا۔ اس سے کہا گیا: ’’إِنَّہُ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔‘‘ ’’بلاشبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ فَأَتَتِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہُ بَوَّابِیْنَ، فَقَالَتْ: ’’لَمْ أَعْرِفْکَ۔‘‘ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئی، تو اُس نے وہاں دربانوں کو نہ پایا، تو اُس نے عرض کیا: ’’میں نے آپ کو پہنچانا نہیں تھا۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُولٰی۔‘‘[1] [’’بلاشبہ صبر تو پہلی ہی چوٹ پر (یعنی باعثِ صدمہ بات سے آگاہ ہوتے ہی) ہے۔‘‘] شرحِ حدیث: i: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا، کہ جس صبر، کے کرنے پر اللہ تعالیٰ کی نوازشات اور عظیم رحمت ملتی ہے، وہ ہے، جو، کہ پہلی چوٹ پر کیا جائے۔[2] ii: علامہ نووی کا بیان: ’’مَعْنَاہُ الصَّبْرُ الْکَامِلُ الَّذِيْ یَتَرَتَّبُ عَلَیْہِ الْأَجْرُ الْجَزِیْلُ
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الجنآئز، باب زیارۃ القبور، رقم الحدیث ۱۲۸۳، ۳/۱۴۸؛ و صحیح مسلم، کتاب الجنآئز، باب في الصبر علی المصیبۃ عند الصدمۃ الأولٰی، رقم الحدیث ۱۵ـ (۹۲۶)، ۲/۶۳۷-۶۳۸۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔ [2] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۱۷۲۔