کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 301
[’’پردیسی اور پردیس میں ہی (چل بسے)۔ یقینا میں ضرور ایسا روؤں گی (یعنی اُن پر ایسا نوحہ کروں گی)، کہ اُسے (یعنی میرے رونے کو بطورِ مثال) ذکر کیا جائے گا۔‘‘]
فَکُنْتُ قَدْ تَہَیَّأْتُ لِلْبُکَآئِ عَلَیْہِ، إِذْ أَقَبَلَتِ امْرَأَۃٌ مِنَ الصَّعِیْدِ، تُرِیدُ أَنْ تُسْعِدَنِيْ۔ فَاسْتَقْبَلَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وَقَالَ:
’’أَتُرِیْدِیْنَ أَنْ تُدْخِلِیْ الشَّیْطَانَ بَیْتًا أَخْرَجَہُ اللّٰہُ مِنْہُ مَرَّتَیْنِ؟‘‘
[’’پس میں رونے کی غرض سے (ذہنی طور پر) تیار ہو چکی تھی، کہ (مدینہ طیبہ کے) مضافات سے ایک خاتون (رونے دھونے میں) میرے ساتھ تعاون کرنے کے ارادے سے آئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس سے سامنا ہوا، (تو) فرمایا:
’’کیا تم اس گھر میں شیطان کو داخل کرنے کا ارادہ کر رہی ہو، جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اُسے دو مرتبہ[1] نکالا ہے؟‘‘
’’فَکَفَفْتُ عَنِ الْبُکَآئِ فَلَمْ أَبْکِ۔‘‘[2]
[’’پس میں رونے سے رک گئی اور میں (بالکل) نہ روئی۔‘‘]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے ایک دوسری روایت میں ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِیْبُہٗ مُصِیْبَۃٌ، فَیَقُوْلُ مَا أَمَرَہُ اللّٰہُ:
[إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ]
اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِيْ فِيْ مُصِیْبَتِيْ وَ أَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا]
[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید یہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے عمدہ اسلام اور عظیم الشان ہجرت کی وجہ سے فرمایا۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔ (ملاحظہ ہو: المفہم ۲/۵۷۴-۵۷۵۔
[2] صحیح مسلم، کتاب الجنآئز، باب البکآء علی المیت، رقم الحدیث ۱۰ ـ(۹۲۲)، ۲/۶۳۵۔