کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 300
اللہ تعالیٰ کے ہاں …إِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی… آخرت میں اُن کا اجر اس سے بہت بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ رضی اللہ عنہا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ إِنَّہٗ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
’’وَکَانَ الْحَامِلُ لِأُمِّ سُلَیْمٍ رضی اللّٰه عنہا عَلٰی ذَلِکَ الْمُبَالَغَۃِ فِيْ الصَّبْرِ وَالتَّسْلِیْمِ لِأَمْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَرِجَآئَ إِخْلَافِہٖ عَلَیْہَا مَا فَاتَ مِنْہَا، إِذْ لَوْ أَعْلَمَتْ أَبَا طَلْحَۃَ رضی اللّٰه عنہ بِالْأَمْرِ فِيْ أَوَّلِ الْحَالِ، تَنَکَّدَ عَلَیْہِ وَقْتُہٗ، وَلَمْ تَبْلُغِ الْغَرْضَ الَّذِيْ أَرَادَتْہُ۔ فَلَمَّا عَلِمَ اللّٰہُ صِدْقَ نِیَّتِھَا بَلَغَہَا مُنَاھَا ، وَأَصْلَحَ لَہَا ذُرِّیَّتَھَا۔‘‘[1]
’’ام سلیم رضی اللہ عنہا کے اس قدر زیادہ صبر اور حکمِ الٰہی کے لیے خود سپردگی کا باعث اُن کی (اللہ تعالیٰ سے یہ) امید تھی، کہ وہ اُن سے لی جانے والی چیز کا بہتر بدل عطا فرمائیں گے، کیونکہ اگر وہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو معاملہ کے شروع ہی سے خبر دے دیتیں، تو اُن کا موقع ضائع ہو جاتا اور وہ اپنی مراد کو حاصل نہ کر پاتیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اُن کے صدقِ نیت کو جان لیا، تو انہیں اپنی مراد تک پہنچا دیا اور اُن کی نسل کی اصلاح فرما دی۔‘‘
۲: ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے صبر کا واقعہ:
امام مسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
لَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَۃَ- رضی اللّٰه عنہ - قُلْتُ:
’’غَرِیبٌ، وَ فِیْ أَرْضِ غُرْبَۃٍ، لَأَبْکِیَنَّہٗ بُکَآئً یُتَحَدَّثُ عَنْہُ۔‘‘
[’’جب ابو سلمہ- رضی اللہ عنہ - فوت ہوئے، (تو) میں نے کہا:
[1] فتح الباري ۳/۱۷۱۔