کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 299
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ (طیبہ) کی عجوہ قسم کی کھجوروں میں سے ایک کھجور منگوائی۔ اپنے مُنہ (مبارک) میں اُسے چبایا، یہاں تک کہ وہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لُعاب مبارک کے ساتھ مل کر) گھُل گئی، تو اُسے بچے کے مُنہ میں ڈال دیا۔ بچے نے اُسے چاٹنا شروع کر دیا۔‘‘]
انہوں نے بیان کیا: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم :
’’اُنْظُرُوْا إِلٰی حُبِّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ۔‘‘
[’’انصاریوں کی کھجور کے لیے محبت دیکھو۔‘‘]
انہوں نے بیان کیا: ’’فَمَسَحَ وَجْہَہٗ، وَ سَمَّاہُ عَبْدَ اللّٰہِ- رضی اللّٰه عنہ -‘‘۔[1]
[’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے چہرے پرہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘]
صحیح البخاري کی روایت میں ہے:
سفیان نے بیان کیا: ’’فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ:
’’فَرَأَیْتُ لَہُمَا تِسْعَۃَ أَوْلَادٍ کُلُّہُمْ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ۔‘‘[2]
[’’ایک انصاری شخص نے کہا:
’’پس میں نے ان دونوں (ابوطلحہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہ ) کے لیے (عبداللہ کی اولاد[3]سے) نو بچے (یعنی اشخاص) دیکھے، جو قرآن کے قاری تھے۔‘‘]
اللہ اکبر! ام سلیم رضی اللہ عنہا کا صبر کس قدر عظیم تھا!
اُن کا اجر دنیا ہی میں کتنا بڑا تھا!
[1] صحیح مسلم، کتاب فضآئل الصحابۃ، باب من فضآئل أبي طلحۃ الأنصاري رضی اللہ عنہ ، رقم الحدیث ۱۰۷ـ (۲۱۴۴) باختصار، ۴/۱۹۰۹۔۱۹۱۰۔
[2] صحیح البخاري، کتاب الجنآئز، باب من لم یظہر حزنہ عند المصیبۃ، جزء من رقم الحدیث ۱۳۰۱، ۳/۱۶۹۔
[3] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۱۷۱۔