کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 296
’’قَدْ ھَدَأَتْ نَفْسُہٗ، وَ أَرْجُوْ أَنْ یَکُوْنَ قَدِ اسْتَرَاحَ۔‘‘
[’’اس کے نفس نے سکون پایا ہے اور مجھے امید ہے، کہ اسے آرام حاصل ہوا ہے۔‘‘]
’’وَ ظَنَّ أَبُوْطَلْحَۃَ رضی اللّٰه عنہ أَنَّہَا صَادِقَۃٌ۔[1]
[’’اور ابو طلحہ… رضی اللہ عنہ … نے سمجھا، کہ وہ سچ کہہ رہی ہیں۔‘‘]
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
’’مَاتَ ابْنٌ لِاَبِی طَلْحَۃَ مِنْ اُمِّ سُلَیْمٍ رضی اللّٰه عنہا ، فَقَالَتْ لِاَہْلِہَا: ’’لَا تُحَدِّثُوا اَبَا طَلْحَۃَ بِابْنِہٖ، حَتّٰی اَکُونَ اَنَا اُحَدِّثُہٗ۔‘‘
’’ابو طلحہ کا ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے (جنم لینے والا) بیٹا فوت ہو گیا، تو انہوں نے اپنے گھر کے والوں سے کہا:
’’ابو طلحہ… رضی اللہ عنہ … سے اُن کے بیٹے کے متعلق (کوئی اُس وقت تک) بات نہ کرے، یہاں تک کہ میں (پہلے سے) ان سے بات کر لوں۔‘‘
انہوں (یعنی انس رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا:
’’فَجَآئَ فَقَرَّبَتْ إِلَیْہِ عَشَائً، فَأَکَلَ وَ شَرِبَ۔
[چنانچہ وہ آئے، تو انہوں نے رات کا کھانا اُنہیں پیش کیا۔ انہوں نے کھایا پیا۔‘‘]
انہوں نے بیان کیا:
’’ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَہٗ أَحْسَنَ مَا کَانَ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذٰلِکَ، فَوَقَعَ بِہَا۔
فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّہٗ قَدَ شَبِعَ وَ أَصَابَ مِنْہَا، قَالَتْ:
[1] صحیح البخاري، کتاب الجنآئز، باب من لم یظہر حزنہ عند المصیبۃ، جزء من رقم الحدیث ۱۳۰۱، ۳/۱۶۹۔