کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 289
عَلٰی وَجْہٍ۔ وَقَالَ الرَّازِيْ: ’’اَلصَّلَاۃُ مِنَ اللّٰہِ ھِيَ الثَّنَآئُ وَالْمَدْحُ وَالتَّعْظِیْمُ۔‘‘ قَالَ الرَّاغِبُ: ’’إِنَّمَا قَالَ: {صَلَوٰتٌ} عَلَی الْجَمْعِ تَنْبِیْھًا عَلٰی کَثْرَتِھَا مِنْہُ، وَأَنَّہَا حَاصِلَۃٌ فِيْ الدُّنْیَا تَوْفِیْقًا وَإِرْشَادًا، وَفِيْ الْآخِرَۃِ ثَوَابًا وَمَغْفِرَۃً، {وَ رَحْمَۃٌ} عَظِیْمَۃٌ فِيْ الدُّنْیَا عِوْضَ مُصِیْبَتِہِمْ۔ {وَ أُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَo} أَيْ: إِلَی الْوَفَائِ بِحَقِّ الرَّبُوْبِیَّۃِ وَالْعُبُوْدِیَّۃِ، فَلَا بُدَّ أَنْ یُوَفِّيَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتَہٗ وَرَحْمَتَہٗ۔‘‘[1] [’’{أُولٰئِکَ}: کے ساتھ سابقہ مذکورہ صفات والے (صَابِرِیْنَ) کی طرف اشارہ ہے۔ {عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ}: (علامہ) راغب نے بیان کیا: (اَلصَّلَاۃُ) اگرچہ اصل میں [دعا] ہوتی ہے، (لیکن) وہ ایک اعتبار سے [اللہ تعالیٰ کی جانب سے برکت] اور ایک دوسرے اعتبار سے [بخشش] ہوتی ہے۔ (علامہ) رازی نے بیان کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ کی جانب سے [اَلصَّلٰوۃُ] ثنا، اور مدح کرنا اور عظمت عطا فرمانا ہے۔ (علامہ) راغب نے بیان کیا: بلاشبہ (اللہ تعالیٰ) نے [اَلصَّلَوَاتُ] کے جمع کا صیغہ، ان کی جانب سے {صَلَوٰتٌ} کی کثرت کو واضح کرنے کی خاطر استعمال فرمایا۔ یقینا یہ دنیا میں (نیک اعمال کرنے کی) توفیق اور (اُن کی جانب سے) راہنمائی
[1] تفسیر القاسمي ۲/۳۲۷۔