کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 286
v : سیّد قطب کا بیان:
’’وَ الْاِسْتِعَانَۃُ بِالصَّبْرِ تَتَکَرَّرُ کَثِیْرًا، فَہُوَ الزَّادُ الَّذِيْ لَابُدَّ مِنْہُ لِمُوَاجَھَۃِ کُلِّ مُشَقَّۃٍ۔‘‘[1]
[’’[صبر کے ساتھ مدد طلب کرنے] کا بہت زیادہ دفعہ (آیات میں) ذکر آیا ہے)۔ وہ ایسا زاد ہے، کہ ہر مشقّت کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کا وجود ضروری ہے۔‘‘]
۳: اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو وصیّت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
{وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ أَصَابَکَ إِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ}[2]
[اور جو مصیبت آپ کو پہنچے، اس پر صبر کیجیے۔ بلاشبہ وہ[3] بڑے ہمت کے کام[4] ہیں]۔
i: قاضی ابو سعود کا بیان:
’’أَيْ : مِمَّا عَزَمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَ قَطَعَہٗ عَلٰی عِبَادِہٖ مِنَ الْأُمُوْرِ لِمَزِیْدِ مَزِیَّتِھَا۔‘‘[5]
[’’یعنی اُن باتوں میں سے ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کی نمایاں حیثیت کے پیشِ نظر، اپنے بندوں کے لیے واجب اور حتمی قرار دیا ہے۔‘‘]
ii: علّامہ شوکانی کا بیان:
’’أَيْ :مِمَّا جَعَلَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَزِیْمَۃً، وَ أَوْجَبَہٗ عَلٰی عِبَادِہٖ۔‘‘[6]
[1] في ظلال القرآن ۱/۶۹۔
[2] سورۃ لقمان / جزء من الآیۃ ۱۷۔
[3] [وہ] سے آیت میں ذکر کردہ چار کاموں: [نماز کا قائم کرنا، امر بالمعروف، نہي عن المنکر اور مصیبت پر صبر کرنے] کی طرف اشارہ ہے۔
[4] ایک ترجمہ یہ بھی کیا ہے: بلاشبہ وہ ایسے کام ہیں، جن کا کرنا اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے۔
[5] تفسیر أبي السعود ۷/۷۳۔
[6] فتح القدیر ۴/۳۴۰۔